• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریاں۔۔درخشاں صالح

پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریاں۔۔درخشاں صالح

بدقسمتی سے ہم کرونا پھیلاؤ کے اس فیز میں داخل ہو چکے ہیں جہاں نہ جانے کتنے پیاروں کی قربانی دنیا پڑے گی۔
ہم بچ سکتے تھے۔۔دنیا کے ان 180 ممالک کی طرح بچ سکتے تھے جو ہم سے پہلے مبتلاء ہوئے اور اب ہم سے کہیں پیچھے ہیں۔ لیکن ہم انہیں چھوڑ کر ٹاپ متاثرہ ممالک میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کی ذمہ دار حکومت یا عوام سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو اس اثناء میں سازشی نظریات پھیلانے میں پیش پیش رہے۔

ایک وقت تھا جب حکومت سڑکوں پر ڈنڈا لیے کھڑی تھی، اور عوام چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دے رہے تھے۔ صرف کچھ ہی وقت تھا ،ہم وائرس کو شکست دینے کے قریب تھے کہ سازشی ٹولہ کود پڑا۔

کہا گیا کہ کرونا مریضوں کو ڈاکٹر زہر کا انجیکشن دے کر مار رہے ہیں۔
جبکہ پاکستان میں وائرس میں مبتلاء ہونے اور مرنے والے نوجوان ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل  سٹاف کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہو گئی۔ یکے بعد دیگرے ہم نے وہ نوجوان اور ہنستے مسکراتے چہرے ہمیشہ کے لیے گنوا دیے جن کے سامنے ایک لمبا اور روشن کیرئیر تھا۔ جنہوں نے اپنی جانیں گنوا دیں ہم انہیں قاتل قرار دیتے رہے۔

اعتراض آیا کہ با  اختیار طبقہ کیوں نہیں مبتلا ہوتا۔؟
کبھی کبھار کسی سیاسی راہنما کی رحلت کی خبر سنا کرتے تھے۔ جبکہ ایک ہفتے میں نصف درجن ممبران اسمبلی جان سے گئے۔ اخبارات سرخیوں سے بھر گئے اور ہم ٹھٹھے اڑاتے رہے۔

کرونا امریکہ کی سازش ہے؟
جبکہ وہی امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے متاثرہ ترین ملک ہے۔
جس بِل گیٹس نے چِپیں ڈالنی تھیں۔ فی الوقت تو وہ اپنے ہم وطنوں کی زندگیاں بچانے سے قاصر ہے، اور ہم سارا مدعا ہی اس پر ڈال کر بیٹھے رہے۔

کرونا کے مریض کہاں ہیں۔۔۔ میڈیا ہمیں دکھا کیوں نہیں رہا؟
آج اسی میڈیا کی نامور شخصیات بے بس پڑی قرنطینہ میں دن گزار رہی ہیں ،جبکہ ہم اسے جھوٹ بولنے کے طعنے دیتے رہے۔پروپیگنڈا اتنا پھیلا کہ مختارے کو “گھر بوہ” کا مشورہ دینے والے اسے باہر نکل کر دوسروں کے جوڑوں میں بیٹھنے پر اُکسانے لگے۔

یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش
شیعہ کی سنی کے خلاف سازش
سنی کی وہابی کے خلاف سازش
سائنس کی مذہب کے خلاف سازش

سازش، سازش سازش، کا راگ الاپتے رہے۔ اور کرونا نے اپنے وار جاری رکھے۔ ذرا دیکھ تو آؤ ہسپتالوں میں کتنے شیعہ پڑے ہیں کتنے سُنّی، کتنے کافر کتنے مسلمان۔۔۔ کتنے انسان؟۔

میں نہ مانوں کی رٹ لگانے والے اس بیٹے کی مدد کرنے کیوں نہ گئے جس کا باپ کرونا کے باعث جاں بحق ہوا اور تدفین کے لیے کوئی نہ آیا۔ جو اکیلا ہی اپنے باپ کی لاش کو دفنا رہا تھا۔ کہاں گئے وہ بے حس جاہل جو کہتے تھے کرونا ہے ہی نہیں۔

میں مانتی ہوں کرونا کو ہماری حکومت کی گومگو پالیسی نے بڑھاوا دیا۔ لیکن ہم نے خود کیا کیا۔؟
اجتماعی دعاؤں سے اجتماعی شاپنگ  تک کا سفر ایک ماہ میں طے کر لیا،اور نتیجہ یہ کہ پندرہ دن میں ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں کبھی چین، اٹلی اور  سپین جیسے ملک تھے وہ تو بچ گئے۔ ہم بھی بچ ہی جائیں گے۔ لیکن نہ جانے کتنی زندگیوں کا خراج دے کر، نہ جانے کتنے پیاروں کو وداع کہہ کر۔
وہاں تو بوڑھوں کو مرتے دیکھ کر سُکھ کا سانس لیا گیا۔ لیکن تم، تمہیں تو اپنے بڑوں کو ہاتھوں سے دفناتے خوشی نہیں ہونی چاہیے۔
آپ خواہ جسے مرضی الزام دیں۔ میری نظر میں اس ساری صورتحال کے بڑے ذمہ داروں میں وہ لکھاری بھی شامل ہیں جو سازشی نظریات کا پرچار کرتے رہے۔ وہ قاری بھی شامل ہیں جو انہیں پھیلاتے رہے۔ ہر وہ شخص جس نے افواہوں کو جنم دیا اور آگے بڑھایا۔ واہ واہ سمیٹی اور بغلیں بجائیں۔ اس تمام صورتحال کا ذمہ دار ہے۔
کیونکہ ان لوگوں کے سبب ہی معاشرتی غیر سنجیدگی پیدا ہوئی، جسے حکومتی آئیں بائیں شائیں نے اور بڑھاوا دیا۔

کہاں ہے کرونا کا مریض۔۔ کہاں ہے کرونا کا مریض،کہہ کر ہذیان بکنے والوں کو اب میتیں اٹھتی دیکھ کر موت نہیں شرم تو آتی ہو گی۔ یا شاید شرم نام کی چیز کا تعلق بھی کفار کی سازش سے ہے۔ سازشی سیاست کھیلنے والے یہ چھوٹے چھوٹے مختارے گھر نہ بیٹھے دوسروں کے جوڑوں میں بیٹھ گئے اور گل واقعی ودھ گئی۔
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن میں لاپرواہی اور بد احتیاطی، غیر سنجیدہ روئیے اور ہٹ دھرمی کے نتائج تیزی کے ساتھ آنا شروع  ہو گئے ہیں۔
جب دس بندے ایک ہی دن کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے تو کچھ دوستوں نے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، میں نے اُس وقت کہا تھا کہ کچھ دنوں بعد یہ تعداد100 بندہ بھی کراس کرے گی۔
سب کچھ صاف نظر آ رہا ہے کہ لاپرواہی اور بد احتیاطی اور غیر سنجیدہ رویے ہمیں لے ڈوبیں گے کچھ لوگ کورونا وائرس کیخلاف پروپیگنڈہ کرتے تھے کہ یہ سب ڈرامہ، جھوٹ، سازش اور پتہ نہیں کیا کیا ہے۔

اب روزانہ کی بنیاد پر اموات کی شرح ایک سو سے اوپر جا چکی ہے، آج 108 افراد کی ہلاکت دیکھ کر بھی اگر ہم نہ سنبھلے تو امریکہ اور اٹلی کے اعداد شمار کراس کر جائیں گے۔
اب تک پاکستان میں کرونا وائرس کے کنفرم مریض 108317 ہیں جن میں سے 35018 صحت یاب ہوگئے ہیں۔ 1489 کی حالت ناساز ہے اور 2172 انتقال کر گئے ہیں۔

پچھلے چوبیس گھنٹوں میں وائرس کے مریضوں کی تعداد 4646 ہے اور 108 انتقال کر گئے ہیں۔
کراچی میں کورونا کے بڑھتے ہوئے مریض اور اموات قابل تشویش ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ تشویشناک کراچی کے ان رہنماؤں کی خاموشی ہے جو گٹر ابلنے پر تو ابل پڑتے ہیں لیکن ان رہنماؤں سے کوئی سوال نہیں کرتے جو کاروبار، ٹرانسپورٹ اور عبادت گاہیں کھلوانے میں سب سے پیش پیش تھے اور کورونا کو واجبی سا نزلہ زکام قرار دیتے رہے۔ آج ہسپتال بھر گئے ہیں، ہمارے شہر میں ایک انسانی المیہ جنم لے  چکا ہے مگر خود ساختہ “قومی میڈیا” کے منہ میں بھی آبلے پڑے ہوئے ہیں اور اب کوئی “فکس اِٹ” کا ڈرامہ بھی نہیں کرتا۔ کوئی تو پوچھے ان سے جنہیں کراچی کے عوام نہیں صرف ان کا ووٹ اور ٹیکس چاہیے۔

کچھ لوگ میری کورونا وائرس کیخلاف احتیاط کا مذاق اُڑاتے تھے، اب سب کو یقین کر لینا چاہیے کہ یہ کورونا وائرس حقیقت ہے اس سے بچاؤ احتیاطی تدابیر سے ہی ہو سکتا ہے۔
ہلاکتیں، بیماریاں اور عوام کی کورونا وائرس کے آگے بے بسی دیکھ کر اب تو میرا دل توہین عدالت اور بغاوت کو کر رہا ہے۔

ایک خبر کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے کرونا سے نمٹنے میں پاکستان کو دنیا کا ناکام ترین ملک قرار دے دیا ہے۔
ایک بات اب کلیئر ہوچکی ہے کہ کرونا وائرس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ جلد یابدیر  ہر بندے نے ایک بار اس سے متاثر ہونا ہے۔ لاک ڈاؤن سے ہم اس کے پھیلاؤ کو سُست تو کر سکتے تھے لیکن روک نہیں سکتے تھے  اور اب جب یہ تیزی سے پھیل چکا ہے تو ہمارے پاس دو آپشن ہیں۔

پہلا آپشن یہ کہ وائرس کی کم سے کم مقدار کو جسم میں داخل ہونے دیں۔ اس کیلئے ہمیں ماسک پہننے کے اصول پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ گھر سے باہر ماسک کے بغیر کوئی نہ نکلے۔ کسی کے گھر جائیں تو ماسک پہن کر جائیں۔ آپ سے کوئی ملنے آئے تو ماسک پہن کر ملاقات کریں اور حکومت کو بھی چاہیئے اس پر سختی سے عمل درآمد کروائے۔
دوسرا ہمارا دفاعی نظام اتنا مضبوط ہو کہ جسم میں بیماری پیدا کرنے سے پہلے وہ وائرس پر قابو پا لے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری آپ سب سے التجا ہے کہ خدارا کرونا کے خلاف خود کو تیار کریں۔ ہم مشکل وقت سے گزر رہے ہیں لیکن بہت جلد اس وقت نے گزر جانا ہے۔۔۔ انشاءاللّہ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply