کسی بھی عہد یا سلطنت کا خاتمہ اچانک نہیں ہوتا، اس زوال کے پیچھے ہمیشہ سیاسی معاشی اور معاشرتی وجوہات ہوتی ہیں جنہیں بروقت پہچان کر انکا حل نہیں نکالا جاتا تو یہ مسائل دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں اور ایک دن بظاہر عظیم نظر آنے والی سلطنت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ سلطنت مغلیہ کیساتھ بھی یہی سب ہوا لیکن اضافی طور پر ایک عرصہ ذلت و رسوائی بھی مقدر رہی۔
سب سے پہلی غلطی سلطنت کے انتظامی ڈھانچہ کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرنا تھا ،پرانا نظام نئے دور میں عوام کو مطمئن نہ رکھ سکا ،نئی قوموں اور طبقوں کو حکومت میں شامل نہ کرنے سے حکومت اور عوام میں دوریاں بڑھتی گئیں۔ انگریزوں کی چالوں کو سارا الزام دینا حقیقت سے آنکھیں چرانا ہے، اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں نے ہی دوسروں کو آگے بڑھنے کے مواقع دئیے۔ یہ زوال کی داستاں 1707ء سے 1857ء قدم قدم پر افسوس اور حسرت سے بھری پڑی ہے۔
ہندوستان میں بہت سے مذہبی عقائد کے ساتھ لوگ اپنی زندگیاں گزار رہے تھے ،اپنے پیشرو بادشاہوں کی سیکولر پالیسی کے برعکس اورنگزیب عالمگیر کا متشدد اور متعصب مذہبی رویہ زوال کی بنیاد میں اہم حصہ رکھتا ہے، بڑے بڑے عہدوں پر عالمگیر نے بھی غیر مسلموں کو رکھا لیکن یہ بھی کافی ثابت نہ ہوا۔ اس سے پہلے تک شہزادوں کو گھوڑے پر سوار رکھ کر میدان جنگ میں مصروف رکھا جاتا تھا وہ سیاسی اور عسکری لحاظ سے مضبوط تربیت حاصل کرتے تھے لیکن پھر اقتدار کیلئے سازشیں ایسی گہری ہوتی گئیں کہ کوئی اپنے شہزادے کو دارلحکومت سے باہر نہ بھیجتا کہ نہ جانے کب تخت حاصل کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے۔ یہ بھول گئے کہ ہمہ وقت جنگ کا مالی فائدہ ہوتا تھا، ایک طرف مال غنیمت ہاتھ آتا تو دوسری طرف مطیع علاقے ریاستیں اپنا ٹیکس بروقت ادا کرتیں ،کسی بغاوت کی صورت میں انکو نتیجہ فورا ًدکھا دیا جاتا، لیکن پھر یہ محل میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے کہ سب اپنا ٹیکس راضی خوشی ادا کر دیں گے، ریاستوں کے کئی شہر اور علاقے تجارتی مرکز بن گئے، تاجر ہندو ساہوکار امیر ہوتے گئے ریاست غریب اور راجے نواب امراء اتنے امیر ہو گئے کہ مغل بادشاہوں کو قرض دینے لگے۔ تجارت سے روپیہ کی گردش ہوئی اور شاہی خاندان کے علاوہ ہر طبقہ کو فائدہ ہوا۔ مغل بادشاہوں نے سیاسی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا اور ثقافتی سماجی اور معاشی طور پر ترقی کرتے ہندوستان کا کنٹرول ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔
مغل سلطنت میں عوام اپنے بادشاہ کو اپنا محافظ سمجھتے تھے معاشی مسائل کا حل بھی ان سے طلب کرتے تھے لیکن پھر بادشاہ سے زیادہ طاقت مقامی ریاستوں کے راجہ امیر اور نوابوں کی ہو گئی عوام بادشاہوں سے لاتعلق ہو گئے۔ معاشی حالات ایسے تھے کہ 1756ء میں جب احمد شاہ ابدالی نے حملہ کیا تو ریاست کے امیر عمادالملک کی فوج بھاگ گئی کیونکہ انہیں تنخواہ نہیں مل رہی تھی۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کی جمع شدہ دولت لوٹی اور ساتھ لے گئے انہوں نے محلات اور دیگر عمارات میں بھی کوئی قیمتی چیز نہیں چھوڑی۔ سلطنت کے حالات یہ ہوگئے کہ شاہی خاندان کی ضروریات فوج کی تنخواہ امراء کے اخراجات مرہٹوں کو خراج سب کیلئے ہر طرف چھینا جھپٹی کی جانے لگی۔ لوگوں نے دولت سے کاروبار کرنے کی بجائے زمین میں دبانا شروع کر دی بے روزگاری بڑھ گئی جرائم میں اضافہ ہو گیا ایسے میں انگریز کی آمد نے لوگوں کو روزگار کے مواقع دئیے تو عوام نے انگریزوں کو پاؤں جمانے میں بھرپور مدد کی۔
ابتدائی ادوار میں خاندان مغلیہ میں حکمران اپنے تخت کے دعویداروں یا بغاوت کرنے والوں کو انکے حامی امراء سمیت مار دیتے تھے یوں مغلیہ خاندان کے ارکان کی تعداد زیادہ نہیں تھی اس لئے وہ ملکی وسائل پر زیادہ بوجھ نہیں تھے، اس دور میں جنگ و جدل جاری رہا ،مال آتا رہا ریاستیں اور علاقے مطیع رہے، شاہی خاندان کی برتری کیلئے روایات اور رسومات اور مخصوص القابات اختیار کرنا انکا حق تھا اس پر ہمسری کے دعویدار خاندان بھی اس طرح پیدا نہیں ہوئے۔ شاہی خاندان میں روایات اور تقریبات بھرپور طریقے سے منانے کا رواج تھا،
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل طاوس و رباب آخر
دربار کی رونقیں، سلام کرنے والوں شعر اور فقرہ بازی سے تعریف کرنے والوں لطیفے سنا کر محظوظ کرنے والوں مخالفین کی ہجو کرنے والوں، درباری گویوں سازندوں اور رقاصوں کو بخشیش عام روایات تھیں، مجرے میں حسیناؤں کی اداؤں پر جاگیریں بخش دینے کی عیاشیاں بھی ہوتی رہیں۔
ایک طبقہ جاگیردار بھی موجود تھا انکے ہاں خوشحالی تھی ان نواب خاندانوں کا رہن سہن بھی شاندار تھا، بچے کی پیدائش سے شاہی خاندان کی طرح رسومات شروع ہو جاتیں، آذان، چھٹی، نام رکھنے کی رسم، بسم اللہ، سالگرہ، ختنہ، جھولے کی رسم، روزہ کشائی، مونچھوں کا کونڈا، پھر شادی کیلئے منگنی، مانجھے ساچق، مہندی، شب گشت، عقد خوانی، ولیمہ، چوتھی زچگی پر چوماسا، ستواں سا، فوتیدگی پر فاتحہ، سوئم، چہلم برسی ان کے علاوہ تمام تہوار نہایت اہتمام سے منائے جاتے یہ سب بے پناہ مالی بوجھ بن گیا ۔ سلطنت کی مرکزی فوج معاشی مسائل کے باعث آہستہ آہستہ کمزور ہو کر ختم ہو گئی، علاقائی امراء جاگیردار اور نواب ہی فوج کے مختلف حصوں کی کفالت کے زمہ دار تھے لیکن انہوں نے مرکزی فوج کی تنخواہیں روک دیں فوجی بھاگنے لگے بیرکیں خالی ہو گئیں یہ بھگوڑے بے روزگار فوجی لٹیرے بن گئے تو یہ امراء نواب لوگ اپنی ضرورت کے مطابق اپنی فوج رکھنے لگے، امراء کا اثرورسوخ بڑھا تو پھر متوقع بغاوتوں کو روکنے کیلئے خاندان کو محلوں میں نظر بند رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اس قید و بند نے مغل شہزادوں کو مردانہ جاہ و جلال بہادری اور سیاسی معاشرتی سمجھ بوجھ سے محروم کر دیا انکی تعلیم و تربیت بھی نہ ہوئی جس شہزادے نے ہوش سنبھالا بڑوں کو کنیزوں باندیوں کیساتھ عیش و عشرت میں دیکھا انہوں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف یہ مغل شہزادے ننگی تلوار دیکھ کر ڈر جاتے اور امراء کے حکم پر چلتے تو دوسری طرف شاہی خاندان کی آبادی بڑھانے میں مصروف رہتے۔ بہادر شاہ اوّل، جہاندار شاہ اور فرخ سیر کے زمانے میں ہونے والی خانہ جنگیوں کی اس کے بعد نوبت بھی نہ آتی صرف امراء کا فیصلہ ہی تخت کا فیصلہ ہوتا، اسکی معزولی کے بعد اسے حرم سے ماں اور بہنوں کے سامنے گھسیٹ کر لایا گیا اور ایک تاریک کمرے میں قتل کر دیا گیا، فرخ سیر کے بعد تین بادشاہ بعد دیگرے سید برادران کی مرضی سے بنے پھر روہیلہ ، مرہٹے اور انگریز برسراقتدار آئے تو بادشاہ انکی مرضی سے مقرر ہوتے سلطنت صرف شاہی دربار اور محل تک رہ گئی تھی۔
امراء قطعی خود مختار تھے سزائیں دینا زمینوں پر قبضہ خوبصورت عورتوں کا اغوا اور لوگوں کو قتل کروانا عام بات تھی۔ یہ زمینوں کا خراج اور دیگر ٹیکس اکٹھا کرتے زیادہ تر غبن کر لیتے باقی اخراجات دیکھا دیتے۔ منافقت ایسی تھی کہ یہ ایک طرف عیاشی میں مبتلا تھے تو دوسری طرف مذہبی سرگرمیوں میں بھرپور خیرات کرتے۔ امراء نے شاہی خاندان کو رسوا کرکے رکھ دیا، ایک نامور امیر غلام قادر روہیلہ نے شاہی خاندان کی بے توقیری میں کوئی کسر نہ رہنے دی، شاہ عالم کو معزول کیا تو اسکی آنکھیں چھری سے نکال دیں شہزادہ اکبر جو بعد میں بادشاہ بنا اسے دربار میں رقص پر مجبور کیا حرم کی عورتوں اور شہزادیوں کی تذلیل کی، شہزادہ بیدار بخت کو اس لئے معزول کیا کہ وہ بازار میں پتنگ اڑانے چلا گیا تھا۔ عماد الملک نے عالمگیر ثانی کو ایک پیر سے ملانے کے بہانے لے جا کر قتل کر دیا۔ سلطنت ان امراء کے ہاتھ میں تھی، مرہٹوں نے تو بادشاہ شاہ عالم پر ایک نگران نظام الدین مقرر کر دیا جو بادشاہ کے اخراجات کو ہر بہانے سے کم کر دیتا حتی کہ بادشاہ کے اہل خانہ کا روزانہ کا راشن بھی یہی مقرر کرتا تھا، اسکے حرم کی دوسو بیویوں میں سے روزانہ باری باری صرف ایک کا راشن ملتا تھا۔ ناصرالدین محمد شاہ رنگیلا نسبتاً طویل وقت ستائیس سال اقتدار میں رہا وجہ اسکی عیش وعشرت تھی جس کے باعث وہ حکومتی امور سے لاتعلق تھا اور امراء خود مختار تھے، اس نے محل میں رنگ رلیاں منانے کا ایسا ماحول بنایا کہ مغل نسل ہی تباہ کر دی۔
یورپی فوجی مہم جو اٹھارویں صدی میں ہندوستان آئے یہ کرائے کے فوجی تھے زیادہ تر فرانسیسی تھے انہوں نے مغل بادشاہ، اودھ کے نواب، دکن کے صوبیدار نظام الملک ، میسور کے حیدر علی اور ٹیپو سلطان، راجپوتانہ کی ریاستوں اور مرہٹہ سرداروں کے ہاں ملازمت کی اور انکی مقامی فوج کو تربیت بھی دی۔ پھر انگریز بحیثیت تاجر ہندوستان آئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کر کے مقامی لوگوں کو روزگار مہیا کیا اور اپنے وفادار لوگوں پر مشتمل بڑا گروہ اکٹھا کرتے چلے گئے، مقامی فوج تیار کرنے میں بھی انہیں زیادہ دیر نہ لگی عام غریب محروم لوگوں کو روزگار ملنے لگا پیسہ انکے ہاتھ آنے لگا تو انگریز کو ہی انہوں نے آقا تسلیم کر لیا۔
انگریزوں کے آنے سے بھی مغل خاندان کے حالات ابتر ہی رہے، گزارے کیلئے صرف وظیفہ ملتا تھا بادشاہ کا یہی اب شاہی خاندان کیلئےاولین مقصد تھا، 1857ء کے ہنگامے میں ملکہ زینت محل اس امید پر انگریز کی طرفدار تھیں کہ شاید انگریز شہزادہ جواں بخت کو بادشاہ بنا دیں۔
آخر دور میں شہزادے صرف قلعہ معلی میں رہ سکتے تھے اور تیمور کی یہ آل اولاد سلاطین کہلاتے تھے، کوئی کام نہ کرتے کوئی ہنر نہ سیکھتے، پتنگ بازی بٹیر بازی کبوتر بازی ، چوسر، گنجفہ اور شطرنج کھیلنے میں مصروف رہتے۔ شاہ عالم کے حرم میں خواتین 500 سے زائد تھیں اسکے ستر سے زائد لڑکے اور لڑکیاں تھیں، اسکا بیٹا اکبر 18سال کی عمر میں 18بیویوں کا شوہر تھا۔ 1836ء میں سلاطین کی تعداد 795 تھی جو بڑھ کر 1858 میں 2104 ہو چکی تھی، یہ سب اپنے خاندان اپنے حرم اپنی کنیزوں کیلئے اخراجات پورے کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے وظیفے کی رقوم اتنی بڑی تعداد کیلئے ناکافی تھیں انکی تقسیم پر بھی جھگڑے ہوتے، سلاطین مہاجنوں سے قرض لیتے اور عدم ادائیگی پر عدالتوں میں پیشیاں بھگتا کرتے۔ اس پر بہادر شاہ ظفر نے 1848ء کو شقہ جاری کیا کہ سلاطین عدالتی رسوائی سے بچنے کیلئے قرض نہ لیا کریں۔ مالی وسائل کی کمی، غربت و افلاس، بیکاری و کاہلی، قید و بند و پابندیاں، سازشی ماحول، محدود زندگی اور محدود مشاغل، بے مقصد زندگی، جھوٹی شان و شوکت اور حالات سے بے خبری نے سلاطین کو بیکار کر دیا ایسی صورتحال میں باصلاحیت اور باعمل انسان کا پیدا ہونا ممکن نہ تھا۔ 1857ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد مغل بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا بہادر شاہ ظفر کا 1862ء میں رنگون میں انتقال ہو گیا اسکے دو شہزادے میجر ہڈسن کے ہاتھوں مارے گئے ایک شہزادہ فیروز بھاگ کر مکہ چلا گیا اور باقی زندگی وہیں گذاری، ایک شہزادہ فخرالدین زخمی ہو کر معذور ہوا اور اور دہلی میں زندگی گذاری، باقی سینکڑوں سلاطین جنگ کے بعد قلعہ چھوڑ کر بھاگے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر زمانہ کے ہاتھوں گمنامی میں روپوش ہو گئے، حرم خالی ہو گئے یہ خواتین بھی تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئیں۔
سلطنت کی عظمت کو قائم رکھنے کیلئے حکمران خاندان کو ہمیشہ قربانیاں دینا پڑتی ہیں لیکن یہ قربانیاں اسی صورت میں صلہ دیتی ہیں جب حکومت ملنے اس پر مکمل گرفت ہو اور وزیر مشیر امراء سب حکمران کے حکم کے تابع ہوں۔ مغل خاندان کے بادشاہ جہاندار شاہ، فرخ سیر، احمد شاہ اور عالمگیر ثانی قتل ہوئے جبکہ شاہ عالم کو اندھا کر دیا گیا لیکن یہ سب قربانیاں رائیگاں گئیں وجہ صرف ایک تھی کہ اس خاندان مغلیہ کے سلاطین تعلیم و تربیت کے فقدان کے باعث سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے تھے ساتھ ہی ساتھ جھوٹی شاہی شان و شوکت اور عیاشیوں نے انکی معاشی حالت بھی تباہ کر دی تھی۔ یہ زوال سلطنت مغلیہ کے عروج پر سیاہ دھویں کی طرح چھا گیا اور سلطنت مغلیہ پر فخر ایک بھُولا ہوا خواب بن گیا۔
(بشکریہ معاونت محقق و تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی، راو جاوید اقبال لاہور ہیریٹج سوسائٹی)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں