کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(قسط 57)۔۔گوتم حیات

غور کیجیے مندرجہ ذیل بیان پر۔۔
“ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کورونا سے اموات اتنا اوپر جائیں گی”
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کن صاحب نے یہ بیان جاری کیا ہے۔۔۔ فروری، مارچ، اپریل اور مئی کا مہینہ بھی رخصت ہو گیا۔ آج گیارہ جون ہے اور اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ “انہیں اندازہ نہیں تھا۔

ایک اور “بیان” کی طرف چلتے ہیں۔ پہلے پہل اس کو پڑھ کر میری زبان گنگ ہو گئی تھی۔۔۔
کیا کوئی حکمران اتنا بھی گِر سکتا ہے؟
میرے دل نے کہا،جی ہاں بالکل گِر سکتا ہے۔
“اپوزیشن چاہتی ہے کورونا سے اموات میں اضافہ ہو تا کہ حکومت پر تنقید کی جا سکے۔۔۔”

جب آپ اپنے آپ کو فرشتہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، کروڑوں اندھوں کو اپنا ہمنوا بنا لیں، کینسر ہسپتال بنانے کے نام پر اپنے تئیں خود کو محب وطن اور نیک انسان ثابت کر کے ہاتھ میں تسبیح لے لیں۔۔۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ کے اندر فرشتانہ اوصاف اُجاگر نہ ہوں تو پھر آپ کی زبان سے ایسے ہی جملے نکلتے ہیں جن کے اندر نہ تو اخلاقیات ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی وژن۔جمہوری سیاست اور پھر انسانیت تو دُور کی بات ہے جس کی امید ان جیسوں سے لگائی ہی نہیں جا سکتی۔

ان کے نزدیک سیاست بس کنٹینر پر بیٹھ کر الزام تراشی کرنے کا نام تھا۔۔۔ نواز لیگ اور پی پی پی کی قیادت پر الزامات کی بھرمار کے بعد، لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے، عوام کو کروڑوں جھوٹے خوابوں کا آسرا دے کر، کنٹینر سے پرائم منسٹر کی سیٹ تک کا سفر تو انہوں نے باآسانی طے کر لیا تھا لیکن اس سے ایک انچ بھی آگے جانا ان کے لیے ناممکن تھا، بلکہ ابھی بھی ناممکن ہی ہے۔ اگر انہوں نے عوام کے بارے میں کچھ سوچا ہوتا تو آج ہم اس بدحالی کا شکار نہ ہوئے ہوتے۔۔۔

دو سال بیت چکے ہیں۔۔۔ “انصافیت تحریک” سے “بُحرانیت تحریک” تک کے اس کامیاب سفر پر میں آپ کی پوری قیادت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔۔۔ آپ کے بیانات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے لطیفوں اور چٹکلوں کا اضافہ کر رہے ہیں جن کی نظیر پچھلے ستّر سالوں کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی کبھی نہ ملے گی۔

ملک بھر میں ان دنوں ایک لطیفہ بہت مشہور ہو رہا ہے۔ یہ لطیفہ آپ کی نظر سے بھی گزرا ہو گا۔۔۔

“کنٹینر پر چڑھ کر دعوے کیے جاتے تھے کہ ہمارے پاس دوسو ماہرِ معاشیات دان ہیں جو اس مُلک کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے لیکن آج دو سال بعد اندازہ ہوا کہ وہ دوسو ماہرِ معاشیات دان نہیں بلکہ ماہرِ منشیات دان تھے جو اب کروڑوں عوام کو جینے کے حق سے بھی محروم کر رہے ہیں۔”

میری دعا ہے کہ ٹڈی دَل اور کرونا کی وبا کے اس خطرناک زمانے میں کسی “دشمن ملک” پر بھی “فرعونی صفت حکمراں” کی حکومت نہ آئے۔

آج کرونا کی وجہ سے کس کس نے اپنی زندگی ہاری۔؟

آنے والے کل میں کون کون اس وبا سے خود کو بچا پائے گا۔۔۔ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، ہو سکتا ہے کہ میں کل کی “قسط” نہ لکھ سکوں۔

کرونا سب ہی کو اپنا شکار کر رہا ہے، یہ وبا اب ہماری فضاؤں میں سرائیت کر چکی ہے، دھوپ کی تپش میں رچ بس گئی ہے۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی تو محفوظ نہیں رہا۔۔۔ وہ جو روزگار اور راشن کے حصول کے لیے اپنے اپنے گھروں سے باہر ہیں، اور وہ جو میری طرح اس وبا کے خوف سے بیس مارچ دوہزار بیس سے اپنے اپنے گھروں میں چُھپے ہوئے ہیں۔۔۔ غیر محفوظ بنا دیے گئے ہیں۔۔۔
شہر ہو یا دیہات ہر گھر میں بےبسی کی کیفیت طاری ہے۔
ڈر، خوف، دکھ، بیماری، بھوک اور موت کا راج ہے۔۔۔ اس وقت مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے؛

ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں،
صدا سسکیوں کی سُنائی نہ دے!!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply