عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔۔ ڈاکٹر مشتاق احمد

20 جنوری کی رات چین میں ہم نے پہلی بار کورونا وائرس کے بارے میں سنا۔ 23 جنوری کو چین نے ووہان اور پھر پورے چین کا لاک ڈاؤن کردیا۔ ہر گھر سے ایک فرد کو کھانا خریدنے کے لئے دو دن کے بعد دو گھنٹے کے لئے باہر جانے کی اجازت تھی۔ سپر مارکیٹس میں سب کچھ دستیاب ہوتا تھا۔ آن لائن شاپنگ کمپنیاں تازہ دودھ ، سبزیاں اور گوشت گھر گھر پہنچا رہی تھیں۔ صرف 40 دن میں حکومت وائرس کو قابو میں لے آئی۔ پھر انہوں نے مرحلہ وار شہر کھولنے شروع کردیئے۔سب سے پہلے کمپنیاں ، پھر دکانیں اور ریستوراں ، پھر ہائی  سکول ، پھر مڈل  سکول، پھر پرائمری  سکول ، پھر یونیورسٹیاں ، پھر کنڈرگارٹن اور اب 12 جون سے مساجد اور مندر کھولنے جا رہے ہیں۔

اب ہم ماسک کے بغیر باہر جا سکتے ہیں۔ زندگی مکمل طور پر معمول پر لوٹ آئی ہے۔ محض 40 دن کا سخت لاک ڈاؤن ان کی خوشیاں واپس لے آ یا، لیکن ہماری کنفیوز قوم پہلے آدھی رات کو اذانیں دے رہی تھی پھر سب کہنے لگے کہ کورونا ورونا ایک ڈرامہ ہے اور اب کورونا ہر جگہ ہے۔ اب وہی کنفیوز لوگ کہہ رہے ہیں کہ کورونا نےسب کچھ ختم کردیا ہے۔ آپ کنفیوز ہیں اور کنفیوز ہی رہیں گے۔ ‬کچھ لوگ اس طرح کنفیوز ہوتے ہیں کہ انہیں خود سمجھ نہیں آتی کہ وہ کس رستے  پہ  جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ کورونا سے بھی زیادہ حطرناک ہوتے ہیں۔

زندگی میں جب بھی آپ کنفیوز لوگوں کے ساتھ بحث میں پڑجائیں گے تو الجھ کر رہ جائیں گے۔ اس چیز سے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے جو قرآن پاک آپ کو بتاتا ہے: (ترجمہ) ’’اور رحمنٰ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے۔‘‘ (سورة الفرقان۔ آیت 63)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قرآن اور احادیث غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں  ، جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد ہیں، یہی تمام چیزیں بنیاد ہیں اور دوسری چیزوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام کی نظر میں بلند انسانی سماج تک رسائی اور انسانیت کی اعلیٰ غرض و غایت کی تحقیق صحیح فکر کرنے سے ہی ممکن ہے اور انسان کی تمام مشکلات غلط فکر اور جہل کا نتیجہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply