کووڈ کا چھٹا دن۔۔محمد اسلم خان کھچی

( یہ میری آپ بیتی ان تمام دوستوں کےلیے ہے جو کورونا کو ڈرامہ سمجھتے ہیں)

آج کا دن کل کی نسبت کافی خراب تھا۔ صبح جب اٹھا تو جسم  شدید بخار سے تپ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اٹھ کے بستر پہ بیٹھا تو کھانسی کا ایک شدید دورہ پڑا کہ پورے جسم میں درد کی ٹیسیں دوڑنے لگیں۔ حالت بہت خراب ہو رہی تھی۔ بچوں کو اندر آنے کی اجازت تو نہیں ہے لیکن کھانسی کی آواز سن کے وہ پریشان ہو گئے اور فون کرنے لگے۔ بڑی مشکل سے سانسیں جمع کر کے ان کو بس اتنا کہہ پایا کہ میں ٹھیک ہوں۔ بڑی مشکل سے اٹھا اور پانی کا ایک گلاس لیا ،لیکن  پانی حلق سے نیچے نہیں اُتر سکا۔
سانس سینے میں دبی دبی سی محسوس ہو رہی تھی۔

تھوڑی دیر بے سدھ لیٹ کے سانسیں بحال کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ Oximeter لگایا تو سیچوریشن 90 % سے ڈاؤن ہو رہی تھی مطلب باڈی کو آکسیجن کی فراہمی بہت کم تھی۔ کسی بھی وقت باڈی کا کوئی بھی آرگن ڈیمج ہو سکتا تھا۔

دوبارہ اپنی پوری قوت ارادی کو مجتمع کر کے اٹھا۔ اس بار کامیاب رہا۔۔ واش روم جا کے منہ ہاتھ دھویا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ اگرچہ زبردستی سانس لینا ایک تکلیف دہ عمل تھا۔ سانس سینے کو کاٹتی ہوئی اندر جاتی محسوس ہو رہی تھی لیکن میں نے یہ پریکٹس جاری رکھی۔ طبیعت بحال ہونے لگی تو میں نے کمرے کے اندر چلنا پھرنا شروع کر دیا لیکن فرنیچر بھرے کمرے کے اندر کتنا چلا جا سکتا ہے۔ بار بار گھومنے سے تھوڑی ہی دیر میں چکر آنا شروع ہو گئے تو میں بستر پہ بیٹھ گیا۔ دوبارہ سیچوریشن چیک کی تو 90 % پہ پہنچ چکی تھی۔ اس کا مطلب خطرے سے باہر تھا۔ اب میں نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا۔ دو گولیاں پیناڈول کی کھائیں تاکہ بخار اور درد کی شدت ذرا کم ہو جائے۔ آدھے گھنٹے بعد بخار اترنا شروع ہو گیا۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد میں نارمل دنیا میں واپس آچکا تھا۔ ابھی مجھے خود کو مصروف رکھنا تھا تاکہ باڈی کو آکسیجن کی سپلائی بحال رھے اور میرے من سے کووڈ کا خوف بھی کچھ کم ہو گا۔

کیا کام کروں! سوچتے سوچتے کافی دیر گزر گئی۔ تبھی اچانک کپڑوں کی الماری پہ نظر پڑی۔۔۔ اور کام مل گیا۔ کم از کم دو گھنٹے کی ایکسر سائز مل گئی۔ الماری سے تمام کپڑے, سردیوں کے, گرمیوں کے, کوٹ پینٹس حتی کہ پرانے کپڑے جو کئی سالوں سے کونے کھدروں میں چھپے ہوئے تھے۔ وہ سب نکال کے بیڈ پہ رکھ دیئے۔

اب سارے کپڑے الگ الگ کرنے شروع کیئے۔ بہت پرانے الگ, سردیوں کے الگ, گرمیوں کے الگ, کوٹ پینٹس, ٹی شرٹ, سب کے الگ الگ ڈھیر لگائے۔ کام تھکا دینے والا تھا لیکن ہمت نہیں ہاری۔

اب دوسرا مرحلہ کپڑوں کو دوبارہ تہہ کر کے الماری میں رکھنا تھا۔ لیکن اب میں کافی تھک چکا تھا۔ مزید کام کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
دوبارہ بستر پہ لیٹ گیا۔ ابھی لیٹا ہی تھا کہ بہت ہی عزیز دوست ” اقبال بھائی” کی کال آگئی۔ وٹس ایپ کال تھی۔ شاید وہ میری حالت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کے تسلی کرنا کرنا چاہتے تھے۔ دوچار باتیں ہوئیں۔ انہوں نے بڑی محبت سے حال احوال پوچھا لیکن دل دکھ سے بھرا ہوا تھا۔ بات نہیں کر پا رھا تھا۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ھے کہ جب کوئی اپنا فون کرتا ہے تو آپ رو پڑتے ہیں۔ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا۔ بڑی مشکل سے میں نے اقبال بھائی سے بات کی لیکن ان کے فون بند کرتے ہی میں رو پڑا لیکن رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔

اسی طرح لیٹے لیٹے مجھے دوبارہ نیند آگئی۔ شاید دو بجے  ڈاکٹر شاہد نواز صاحب   کی کال سے اٹھا۔ انہوں نے کچھ میڈیسن تجویز کیں اور ساتھ ہی ” ری کووڈ “کے ساتھ ساتھ کچھ مزید ٹیسٹ کرانے مشورہ دیا۔ چونکہ آجکل کووڈ ٹیسٹ کرانا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے سورسز استعمال کرتے ہوئے چغتائی لیب والوں کو ٹیسٹ پہ راضی کر لیا۔

چغتائی والوں نے ” خان سینٹر ” نشتر روڈ کی بیسمنٹ میں پہنچنے کا کہا مجھے کچھ حیرانی ہوئی اور سوال پوچھ بیٹھا کہ بھائی لیب آ جاتا ہوں لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ ہو گی کوئی مجبوری۔
اب طبیعت بالکل سنبھل چکی تھی۔ سیچوریشن 97 % پہ آچکی تھی۔ گاڑی نکالی اور 15 منٹ میں ہی مقررہ جگہ پی پہنچ گیا۔چغتائی کےٹیکنیشن پہلےہی پہنچ چکے تھے۔سیمپل دینے میں دو منٹ لگے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے اور خود کو سینیٹائز کیا اور مجھے جانے کی اجازت دے دی۔

وہاں سے نکلا اور سڑکوں پہ مٹر گشت کرنے لگا۔ دنیا بہت پیاری لگ رہی تھی۔ ہر چیز آج الگ انداز سے خوبصورت لگ رہی تھی۔ گھومتے گھومتے گول باغ پہنچ گیا۔ اچانک وائٹ کلر کی آلٹس پہ نظر پڑی ۔وہیں رک گیا۔ بہت پیارے دوست ملک ریحان اور جعفری صاحب مل گئے۔ چونکہ دونوں کو پتہ تھا کہ میں کووڈ سے متاثر ہوں اس لیئے ہم سب نے کم از کم 15 فٹ کا فاصلہ رکھا۔ جوس پیا۔ گپ شپ کی اور اپنے اپنے راستوں کو چل دیئے۔ لیکن اس سارے پروسس میں میں نے کہیں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، کہ کہیں میری وجہ سے کوئی متاثر نہ ہو، گاڑی کو باقاعدہ سینیٹائز کرتا ہوں۔ گلوز, مہنگا ماسک استعمال کرتا ہوں۔

ابھی گھر پہنچا ہوں۔ تھوڑا تھک گیا ہوں۔ ابھی کپڑوں کا کام بھی باقی ہے، وہ اب رات کو کروں گا۔۔
آج کی مصروفیات سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کورونا اتنی خطرناک بیماری نہیں کہ یہ ہماری موت کا سبب بن جائے۔۔۔ اگر یہ آپ کو ہو جائے تو اپنی مضبوط قوت ارادی سے اس سے لڑا جا سکتا ھے۔ اسے شکست دی جا سکتی ہے۔ ہاں اگر آپ ڈر گئے تو پھر ممکن ہے کہ یہ آپ سے جیت جائے۔مجھے کووڈ 19 کے ساتھ 2016 سے Polycythemia Vera بھی ہے جو دوست میڈیکل سے وابستہ ہیں وہ اس بیماری کی سنگینی سے ضرور واقف ہوں لیکن اس کے باوجود بھی میں اپنی پوری قوت کے ساتھ جو میرے مالک ذوالجلال نے مجھے دی ہے اس بھرپور طاقت کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہوں اور انشاللہ اللہ پاک کے فضل وکرم سے یہ کووڈ آپکا, میرا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔

میں نے خود کو مکمل کورنٹائن کیا ہوا ہے۔ حتی کہ دروازوں کے نیچے گیپ کو بھی کپڑے پھنسا کے بند کیا ہوا ہے۔ اپنا کمرہ روزانہ سینیٹائز کرتا ہوں۔ فرش صاف کرتا ہوں۔ کپڑے, بستر کی چادریں تبدیل کر کے واش روم میں رکھی بالٹی میں ڈال کے گرم پانی سے بھر دیتا ہوں۔ آج انتہائی مجبوری کی حالت میں باہر جانا پڑا ورنہ کبھی نہ جاتا۔۔۔ اور یہ سب کرنے کا مقصد خود کو مصروف رکھنا اور ہلکی پھلکی ایکسر سائز ھے تاکہ باڈی میں آکسیجن سپلائی بحال رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب سے آخر میں سب اتنی ریکوئسٹ ہے کہ آپ کوشش کریے، کورونا سے بچ کے رہیے۔۔۔ یہ سچ ہے کہ کورونا جان لیوا نہیں لیکن تکلیف دہ بہت ہے۔ مضبوط قوت ارادی سے ہی اس سے لڑا جا سکتا ہے۔
اللہ رب العزت آپ سب کا حامی و ناصر ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply