کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(قسط 56)۔۔گوتم حیات

ملک معاشی طور پر تقریباً دیوالیہ ہو چکا ہے۔ عوام پر کرونا کا عذاب تو مسلط تھا ہی، اب فصلوں پر ٹڈی دَل کے حملوں نے ایک گھمبیر صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر فوری طور پر فصلوں کو بچانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تو آنے والے مہینوں میں غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کھڑی فصلیں پہلے ہی برباد ہو چکی ہیں۔
اتوار سات جون دوہزار بیس کے روزنامہ ایکسپریس اخبار میں “زاہدہ حنا” اپنے کالم دو “کھرب حملہ آور” میں رقم طراز ہیں کہ
“اس وقت ہمارے ملک پر ٹڈی دل کے جو حملے ہو رہے ہیں ان کے بارے میں اقوام متحدہ کی جانب سے کافی پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اس ادارے کی تنظیم برائے خواک و زراعت نے فروری میں خبردار کر دیا تھا کہ جنوبی ایران اور جنوب مغربی پاکستان کے کئی علاقوں میں ٹڈیوں کی غیر معمولی افزائش کا خطرہ ہے”
اب آپ ذرا اندازہ لگائیے کہ اقوام متحدہ ان حملہ آور ٹڈیوں کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر چکا تھا۔ اگر موجودہ حکومت کو عوام یا کاشتکاروں کی فکر ہوتی تو لازمی طور پر ٹڈیوں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جاتا، مگر افسوس کہ ان کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں ہے، خواب غفلت میں سوئی ہوئی یہ حکومت آخر کب بیدار ہو گی۔؟
زاہدہ حنا اسی کالم میں ملک بھر میں فصلوں پر ٹڈیوں کے حملے اور کرونا وائرس کے بارے میں لکھتی ہیں کہ
“پاکستان پر اس وقت پچیس سال کے بعد ٹڈی دَل کا اتنا بڑا حملہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں اس سال موسم گرما میں دو کھرب ٹڈیاں حملہ آور ہوسکتی ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہماری حکومت اور متعلقہ محکموں نے اس مسئلے کی سنگینی کا بروقت ادراک نہیں کیا۔ کورونا کی وبا کی طرح اس نئی آفت کے بارے میں بھی ہمیں پہلے سے علم ہو چکا تھا۔ کورونا وائرس کا پہلا معاملہ فروری میں سامنے آیا اور ٹڈی دل کا پہلا حملہ بھی فروری میں ہوا تھا۔ جس طرح کورونا کے بارے میں فوری اور فیصلہ کن فیصلے کرنے سے گریز کیا گیا اسی طرح ٹڈی دل کی آفت کا سامنا کرنے کے لیے بھی ہم بروقت اقدام نہیں کر سکے۔ اس وقت ٹڈیوں کے بڑے بڑے جھنڈ ملک پر حملہ آور ہوکر لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کا صفایا کرنے میں مصروف ہیں”۔
ہر گزرتا ہوا دن اپنے پیچھے بحرانوں کا نہ ختم ہونے والا “کوہِ ہمالہ” بلند کر کے گزر رہا ہے۔ کروڑوں نوکریاں دینے اور اسٹیل مل کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی دعویدار حکومت کے سربراہ کے پاس حقیقی طور پر عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ان کے پاس محکوم عوام کو دینے کے لیے کچھ ہے تو وہ “بے معنی خطابات” ہیں جو تسلسل کے ساتھ پوری ڈھٹائی کے ساتھ دیے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیراعظم صاحب اپنے خطاب کے دوران عوام کو ماسک کی افادیت اور چہرے پر ماسک لگانے کا طریقہ سکھا رہے تھے۔ اُس گھڑی میں سوچ رہا تھا کہ کاش ماسک لگانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی زبان کو بھی لگام لگا سکیں، عوام کی زبانوں پر تو پہلے ہی لگامیں لگائی جا چکی ہیں۔۔۔
پچھلے دس دنوں سے پیڑول پمپوں سے پٹرول بھی غائب کر دیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کے باوجود عوام کو پٹرول نہیں دیا جا رہا۔ کراچی سے پشاور تک پیٹرول پمپز پر لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں ہیں۔۔۔
اتنی خراب صورتحال کے باوجود کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ
“ہمیں کپتان صاحب کی نیت پر شبہ نہیں ہے، بدقسمتی سے ان کے ساتھ جو لوگ ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں، اصل میں یہی موقع پرست لوگ کپتان کو ٹھیک سے کپتانی کرنے نہیں دے رہے۔”
تو وزیراعظم صاحب کی نیت اچھی ہے۔ بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ نیتوں کا حال تو بس اللہ ہی جانتا ہے مگر اب نئے پاکستان میں وزیراعظم کی “اچھی نیت” کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔ ان کی خامیوں کو خوبیوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ کاش اس “اچھی نیت” کی بدولت عوام کو بھی کچھ مل سکتا۔ کروڑوں نوکریاں ہی فراہم کر دی جاتیں۔
کاش کہ کرونا وائرس وزیراعظم کی “اچھی نیت” کی وجہ سے پاکستان کی سرحدوں میں داخل نہ ہوتا، اور یہ پیاری پیاری ٹڈیاں بھی اپنا رُخ کسی اور ملک کی طرف موڑ دیتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔۔۔ مگر افسوس کہ اس “اچھی نیت” سے کسی ملک کی معیشت کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی وبا یا کسی ٹڈی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ان تمام چیلینجوں سے نمٹنے کے لیے حقائق کو سامنے رکھ کر پالیسیز بنائی جاتی ہیں اور پھر ان پالیسیز پر عملدرآمد کے لیے دیانتداری اور خلوصِ دل کے ساتھ کام کیا جاتا ہے۔۔۔ تقریریں اور خطابات نہیں کیے جاتے اور نہ ہی سنہرے خواب دکھا کر محکوم عوام کی زندگیوں میں زہر گھولا جاتا ہے۔
اس “اچھی نیت” نے ان تاریک راتوں میں عوام کے ہاتھوں میں فقط بُجھے ہوئے چراغ تھما دیے ہیں۔
کیا یہ بُجھے ہوئے چراغ ہمیں منزل پر پہنچائیں گے یا کسی دلدل میں ڈبوئیں گے۔؟ وزیراعظم صاحب کی نیت تو اچھی ہے۔۔ کیا یہ “اچھی نیت” ہمیں اس وبا سے بچا پائے گی۔؟ آج بھی اسّی سے زائد افراد کرونا کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے سو گئے ہیں۔
چار سُو خاک اُراتی ہے ہوا،
از کراں تا بہ کراں ریگِ رواں۔
وقت کے سوگ میں لمحوں کا جلوس
جیسے اِک قافلہء نوحہ گراں!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply