ہٹو بچو…. دور دور رہو۔۔روبینہ فیصل

عید کے تیسرے دن میری ایک آنٹی جی، شیخوہ پورہ میں فوت ہو گئیں۔ شوگر کی مریضہ تھیں اور اسی سلسلے میں دو سال پہلے ڈاکٹرز نے ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹ دی تھی کہ جو عضو، جسم پر بوجھ بن جائے اس کا الگ کرنا ہی بہترین ہوتا ہے۔ ان کا زندگی کی طرف مثبت رویے کا یہ عالم تھا کہ ان کے چہرے پر مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی مسکراہٹ رہتی تھی اور اللہ توکلی کا تو کچھ نہ پو چھیے، کہ دوائی بھی نہیں کھانی کہ جو خدا کی مرضی ہو گی ویسا ہی ہو گا اور وہ رحم کرنے والا ہے۔۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا نے آنٹی کی کئی بے احتیاطیوں کے باوجود ان کی اس درویش صفتی اور سادگی کے صدقے بہت بار ان پررحم بھی کیا، اسی لئے تو جو ڈاکٹرز ان کی ٹانگ کاٹنے سے پہلے ہی رشتہ داروں کو آگاہ کر رہے تھے کہ ان کی موت آپریشن ٹیبل پر ہو سکتی ہے وہ بھی حیران ہو ئے کہ انہوں نے اس کے بعد بھی دو سال اسی دنیا کے میلے میں اپنوں کے درمیان صبر و شکر کے ساتھ گزار دئیے۔ اور چونکہ ہمیشہ سے رونق میلے کی شوقین تھیں ، اس لئے وبا کے ان دنوں میں جب ہر کوئی اوپر جا رہا تھا وہ بھی چلی گئیں اور یقینا ً اوپر جا کر بھی اپنی مسکراہٹ سے ارد گرد والوں کو روشنی دے رہی ہو ں گی۔

وہ ایک ہر دلعزیز شخصیت تھیں اس لئے سب رشتہ دار جن میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بوڑھے لوگ بھی شامل تھے اور رشتے داروں کے بھی رشتے دار، وبا کی پرواہ کیے بغیر آنٹی جی کے اللہ توکل رویے کے عین مطابق جوق در جوق ان کے جنازے میں شریک ہو ئے۔ میں یہاں بیٹھی سب سن رہی تھی اور حیران تھی کہ یا للہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کیا ان کے علاقے میں کرونا نہیں ہے کہ یہ سب بغیر کسی احتیاط کے ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کر رو بھی رہے ہیں اور جنازے سے بھی چمٹ رہے ہیں۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کی موت کیسے ہو ئی ہے۔ہارٹ اٹیک تو ایک اینڈ رزلٹ تھا اس سے پہلے ہوا کیا۔۔ خیر موت کے گھر میں نصیحت کون سنتا ہے، بلکہ مرحومہ کی بہن سے بات ہو ئی توان کے انداز میں ان لوگوں کے لئے ایک واضح گلہ تھا جو جنازے پر نہیں پہنچے تھے۔

اب جو جنازے پر گئے بعد میں ان میں سے کئی کو بخار ہوا اور کرونا کی سب علامتیں ظاہر  ہو ئیں،کچھ کی حالت میں بہتری آرہی ہے اور کچھ بتائے بغیر خاموش ہیں۔۔ ان میں سے میری ایک کزن جواسلام باد سے جنازے میں شریک ہو ئی تھی،اس نے کل مجھے بتایا کہ باجی! کرونا کوئی مذاق نہیں ہے۔۔

میں نے کہا ہاں مجھے پتہ ہے۔۔ہم لوگ مارچ سے ہی اسے بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں جب گورنمنٹ آف کینیڈا نے بھی لاک ڈاؤن نہیں شروع کیا تھا۔

پھر اس نے مجھے فیملی کے کئی افراد کے نام بتائے جو جنازے میں شریک ہو ئے تھے اور انہیں اب کرونا کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو چکی تھیں۔۔جن میں تیز بخار، خشک کھانسی اور کچھ کو الٹیاں وغیرہ تھیں۔۔ اب میری اس کزن کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کی عمریں بالترتیب ۶ اور ۳ سال ہیں جنہیں چھوڑنا مشکل امر تھا مگر وہ بھی قرنطینہ  میں ہے کہ اس کا بخار، سر درد اور جسم کا درد اسے مارے دے رہا تھا۔۔ ایک دن زیادہ طبعیت بگڑنے پر ایمرجنسی میں گئی تو وہاں ڈاکٹرز ہڑتال پر تھے،کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے کہا گھر میں جا کر قرنطینہ  میں چلی جائیں یہاں ٹسٹ بھی کروایا تو مثبت نکلنے کی صورت میں پورے گھر کو لے جائیں گے۔

اس کو اب قرنطینہ میں پانچواں دن ہے ۔۔اوپر والی منزل میں ایک کمرے میں بند ہے۔ اس کا شوہر دونوں بچوں کو سنبھال رہا ہے، اور اس کو سوپ، جوس بنا بنا کر دروازے کے پاس رکھ جا تا ہے۔ بخار میں کبھی کمی آجاتی ہے کبھی تیز ہو جاتا ہے اور وہ بتا رہی تھی کہ جسم میں ایسی درد ہو تی ہے کہ ناقابل ِ بیان ہے۔ اور جب وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کیمرے سے دیکھتی ہے تو اس کا دل روتا ہے کہ کب وہ انہیں دوبارہ سے گود میں بٹھا سکے گی؟

“بخار میں پیراسٹا مول کوئی کام نہیں کرتی، اپنی مرضی سے آتا ہے اور اپنی مر ضی سے جا تا ہے۔۔” یہ اس کے الفاظ ہیں۔ بخار اب کم ہو گیا ہے مگر اب کھانسی بڑھ گئی ہے اتنی کھانسی ہو تی ہے کہ گلے کے اندر زخم بننے لگے ہیں اور کئی دفعہ سانس بند ہونے لگتا ہے۔ فیملی ڈاکٹر سے پو چھا تو اس نے کہا جو احتیاط کر سکتے ہیں گھر کے اندر ہی کر یں سانس کی زیادہ پرابلم ہو گئی تو دور دور تک وینٹیلٹر کا انتظام نہیں ہے۔۔ اب وہ خوفزدہ سی کمرے میں بند پڑی ہے اور بار بار یہی کہہ رہ رہی ہے کہ میری تھوڑی سی لاپرواہی سے دیکھو کیا ہو گیا۔

میں نے کہا تم چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر کیوں گئیں۔۔
کہنے لگی باجی! نہ جاتی تو امی ناراض ہو جاتیں کہ مرنے والی ان کی بہن تھیں۔۔

اپنی اس کزن کی خواہش پر میں اس کی یہ کہانی آپ سب کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں۔۔اسلام آباد سے شیخوہ پورہ سفر کر نے کا رسک، جنازے (جس میں بھانت بھانت کے لوگ شامل ہو تے ہیں) اس میں شامل ہو نے کا رسک، گلے لگ کر بے اختیار ہو ہو کر رونے کا رسک۔۔ نہ جانے کتنے رسک شامل ہو گئے ہیں ہماری ایک چھوٹی سی شرکت میں۔ یہ بات ان لوگوں کو بھی سمجھنی چاہیے جن کے گھر خدا ناخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے، وہ خود لوگوں کو یہ کہہ کے شرکت کے فر ض سے آزاد کر دیں کہ
” ہم جانتے ہیں آج کل کے حالات کی مجبوری پلیز آپ بالکل آنے کی زحمت نہ کریں۔۔”

جانے والے کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اسے رخصت کرنے کتنے لوگ آئے تھے؟اس کو تو جانا ہی جانا ہے اس کے آخرت کے سفر کو اپنے بچوں اور دوسروں کا آخری سفر تو نہ بنائیں۔۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وبا کے ان دنوں میں محبتوں کے معیار بدل گئے ہیں۔ پہلے کسی خوشی کی تقریب یا جنازے میں شرکت کو محبتوں کی علامت سمجھا جا تا تھا۔ اب پلیز دور دور رہ کر دعا دینے والوں کو محبت اور کیئر کی علامت سمجھنا شروع کر یں۔۔ مان جائیں کہ اب سب کچھ پہلے جیسا نہیں رہا۔ اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی کے لئے ایک دوسرے سے جتنی دوری ہو سکے اختیار کریں۔

“باجی! کرونا کوئی مذاق نہیں ہے۔۔۔۔” میری کزن کا فقرہ بار بار میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔

اسے سنجیدہ لیں۔۔۔نہ یہ کوئی سازش ہے اور نہ کوئی افواہ۔۔۔ کرونا آج کے وقت کی سب سے بڑی حقیقت ہے اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیں۔۔ نہ یہ کوئی جوان دیکھ رہا ہے نہ بوڑھا نہ بچہ۔۔ نہ امیر نہ غریب، نہ معروف اور نہ غیر معروف۔۔ جو بے احتیاطی کرے گا اس کی زد میں آجائے گا۔۔ علامتیں بھی سب میں یکساں ہونگی، بغیر کسی امتیاز کے۔

بحث کا وقت ختم ہوا، عمل کا وقت شروع ہوا۔ کوئی حکومت، کوئی ادارہ آپ کو نہیں بچا سکتا۔۔ آج کی وبا میں آپ خود اپنے حکیم اور ڈاکٹر ہیں۔
آپ کی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کرونا سے بچ جائیں لیکن آپ کی وجہ سے کسی ایسے کو ہوجائے جو نہ بچ سکے۔۔ تو؟ خود اپنی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں کی حفاظت کا ذمہ بھی آپ کے ہاتھوں میں آگیا۔۔

اگرخدا اپنی جان سے کھیلنے کا آپ کو حق دیتا تو خود کشی حرام نہ ہو تی۔
خدا دوسروں کی جان لینے کی اجازت دیتا تو قتل بھی جائز ہو تے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سو!سمجھیے وبا کے دنوں میں آپ نے احتیاط نہ کی تو خود کشی اور قتل دونوں کا گناہ آپ کے سر۔۔۔۔۔۔بچیں اور بچائیں۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہٹو بچو…. دور دور رہو۔۔روبینہ فیصل

  1. Beautifully written by a sensitive author who read the pulse of a man in distress and elaborate his feelings without revealing stress. You style is mature .It takes many a year for the people to cultivate such cohesion of expression . I feel proud to know you.Keep it up

Leave a Reply