افواہ پھیلی ہے کہ وبا نہیں کوئی۔۔عبدالرحمن عمر

 

نسل ِ انسانی کو پہلی بار وبا کا سامنا نہیں۔ اس سے قبل بھی کئی ایک وبائیں مختلف ادوار میں دنیا کے ایک بڑے حصے کو متاثر کر چکی ہیں۔ علاج دریافت ہونے تک احتیاط ہی واحد راستہ تھا جس کی بنا پر بیماری کا شکار افراد کی شرح مختلف معاشروں میں مختلف رہی۔

حالیہ کورونا وبا ایک مریض سے شروع ہوکر دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ بہت سے ممالک میں وائرس اجتماعی نااہلی کے باعث، خوفناک رفتار سے بڑھتے ہوئے اپنا خراج وصول کر رہا ہے ۔ جبکہ کچھ ممالک میں مضبوط حکومتی کوششوں اور سماجی تعاون سے وبا کو نہ صرف محدود بلکہ خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

کورونا وائرس کی وباپاکستان میں پہنچی تو ابتداً حکومت، انتظامیہ اور عوام نے کسی حد تک ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، جس کے باعث وائرس کے محدود رہنے کی صورت میں خاطر خواہ نتائج بھی ملے۔ لیکن جلد ہی احتیاط سے اکتاہٹ، سیزن نکل جانے کے خوف، سازشی چورن بیچنے کے لالچ نے مجبور کیا۔ مختلف حلقوں کے دباؤ میں آکر قوت فیصلہ سے تہی حکومت نے بھوک کا خوف دلا کر اجتماعی مدافعت کی غیر اعلانیہ پالیسی اپنائی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب وبا پنجے گاڑ چکی تھی، لیکن کیا کیجیے کہ حکومت، مذہبی، تجارتی اور سماجی حلقوں نے جھوٹ کو ہتھیار بنا لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک کے بعد دوسرے حلقے نے اپنی دوکان داری کی دہائی دی۔ حفاظتی تدابیر پہ عمل کے کھوکھلے وعدے کیے، اور کورونا روکنے کی بجائے پھیلانے کی کاوشیں زیادہ نظر آئیں۔ کچھ پڑھے اور سنے جانے والے حضرات نے زبان کی کمائی بڑھانے کو جھوٹ بیچا تو عوام نے سرے سے حفاظتی انتظامات کو ہی مذاق بنا ڈالا۔ تادمِ تحریر وطن عزیز میں ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار ہوچکے۔

ہم مریضوں کی تعداد کے حساب سے دنیا بھر میں پندرھویں نمبر پر جبکہ حفاظتی انتظامات کے حوالے سے ابتدائی سو ممالک میں بھی شامل نہیں ہیں۔

اجتماعی خودکشی کی طرف بڑھتے ہوئے سب سے مضحکہ خیز عمل ڈاکٹرز کی رائے کو تضحیک کا نشانہ بنانے کا تھا۔ جس کے نتائج صرف پنجاب میں ڈاکٹرز کے مطابق دو کروڑ مریضوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ حکومتی سطح پہ کم سے کم ٹیسٹ ہی مریضوں کی تعداد محدود رکھنے کا حربہ ہے۔

اگرچہ ہم نے مریض اپنی آنکھوں سے دیکھنے، کسی جاننے والے کے شکار ہونے، کسی جاننے والے کی وائرس سے موت ہونے، امرا ء کے شکار ہونے جیسے کئی ایک غیر سنجیدہ اور بھیانک مطالبات کیے جو کہ بدقسمتی سے کورونا وائرس تیزی سے پورا کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے جاننے والے وائرس کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

بد قسمتی سی بد قسمتی ہے کہ جب تک وائرس چین تک محدود تھا تو چمگادڑ کھانے کا نتیجہ، یورپ پہنچا تو عذاب، سعودی عرب پہنچا تو امریکی اطاعت کی سزا، پاکستان پہنچا تو عورتوں کے لباس کی وجہ، سرمایہ داریت کی سازش، کورونا کی آڑ میں مائیکرو چپ لگانے کا منصوبہ قرار دیا گیا، ساتھ ہی ثریا ستارے کے طلوع اور اذانوں سے رک جانے کی نوید بھی سنائی گئی۔ اب جب کہ سارے ہی دعوے ایک ایک کرکے جھوٹ ثابت ہوچکے تو نیا راگ الاپا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر معمولی مرض میں مبتلا افراد کو زہر کا ٹیکہ لگا کر لاش ڈالروں کے عوض فروخت کر رہے ہیں۔ حفاظت کے نام پر خالی تابوت دفن کیے جا رہے ہیں اور لاشیں امریکہ بھجوائی جا رہی ہیں۔

اب تک کی کُل حکومتی کار گزاری کا حاصل، طبی ماہرین کے بغیر نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کا قیام، پہ درپہ متضاد حکومتی بریفننگ، انتیس ہزار بستر کا انتظام، اور جاری و ساری مضحکہ خیز سمارٹ لاک ڈاؤن ہے۔

اس تکلیف دہ صورتحال کو ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہی کہا جاسکتا ہے۔ حکومتی، سماجی اور عوامی سطح پر ایک دوسرے اور خود اپنے آپ سے بولا گیا جھوٹ انتہائی بھیانک صورت میں آج ہمارے سامنے ہے، جس کی وحشت بڑھنے کے اشارے بہت واضح ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ہمارا اجتماعی فیصلہ تھا کہ ڈاکٹرز اور عالمی ادارہ صحت کی دہائیاں نہ سنی جائیں، وبا کو معمولی زکام سمجھا جائے، سامراجی سازش کا راگ الاپا جائے، مسجدوں کو ویران اور معیشت تباہ کرکے غلام بنانے کی سازش سمجھا جائے، کافروں کیلئے عذاب کہا جائے، گرم موسم میں وائرس کے ختم ہونے، خیالی طور پہ مضبوط قوت مدافعت، بے بنیاد طبی ٹوٹکوں اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پہ خود کو دھوکہ دیا جائے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ آج گھر، گھر پڑے مریضوں کو زہرکے انجکشن کے خوف سے چھپایا جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کل بچ جانیوالے مورخ کا دل یقیناً خون کے آنسو روئے گا، جب سماجی فاصلہ رکھنے، صابن سے ہاتھ دھونے، محدود رہنے، بچوں اور بڑی عمر کے افراد کو گھروں میں رکھنے جیسی سادہ تدابیر اختیار نہ کرنے کے جرم کی سزا بے شمار لاشیں لکھے گا۔ اسکا کلیجہ منہ کو آئے گا جب وجوہات لکھتے ہوئے ہمارا ایک دوسرے اور خود سے بولا جانے والا “جھوٹ” ہی ہمارا جرم لکھے گا۔

Facebook Comments

عبدالرحمٰن عمر
پڑھنے، لکھنے کا شوق، پیشہ وکالت اور فری لانس جرنلزم سے وابستہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply