ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔۔ ملک جان کے ڈی

یاد رہے غلامی ایک سماتے وچ ہے اور سوچ کبھی بھی بدلی جاسکتی ہے مدِ مقابل کی سوچ سے اپنی سوچ بلند کردو ،اسکے خیالات دب جائیں گے بقول دانشور   پارس صاحب ، فرماتے  ہیں کہ ”   سرخ ہندیوں سے موازنہ مضحکہ خیز لگتا ہے کہ وہ لوگ باقی دنیا سے کٹے ہوئے تھے جبکہ ہم پوری دنیا سے جڑئے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس کوئی تعلیمی نظام نہیں تھا۔ ان سردار وفاقی سیاست میں تھے۔انکے پاس قلم نہیں تھا۔مکالمے کی طاقت نہیں تھی اپنے سے زیادہ ذہین اور طاقت ور سے مقابلے کا تجربہ نہیں تھا۔ اگر وہ اپنی جانب بڑھتے سفید رنگ کے سیلاب میں اپنا سرخ رنگ ملا لیتے تو نتائج یکسر مختلف ہوتے سفید رنگ کی آمیزش غالب رہتی۔ افسوس! وہ تسکین ِ انا کے لیے ڈٹ گئے اور درختوں کی مانند زمین کے اندر پاؤں گاڑ کے کھڑے ہوگئے ،انھیں ادراک نہیں تھا کہ نووارد بھلے چھوٹے قد کے کچی سفید چمڑی اور جسمانی طور پر ان سے کمزور ہیں مگر ذہانت نے ان کے ہاتھوں میں لوہے کے بڑے بڑے آرے تھما رکھے ہیں جن کے آگے دیو قامت درخت بھی نہیں ٹک سکتے۔

آزادی کی آرزو ہے تو سب سے پہلے اپنے سامنے والے  کی آزادی کو تسلیم کرو اور اگر سامنے والا تمہاری آزاری کو تسلیم نہیں کرتا تو ان محرکات پر غور و فکر کرو جن کی بنیاد پر وہ تمھیں کمزور تصور کرتا ہے، گریبان میں جھانک کر اپنا احتساب کرو۔ وہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے مارے گئے کہ انہوں نے ہسپانویوں  سے پہلے طاقتور قومیں کبھی دیکھی ہی نہ تھیں۔

غلام محمد نے قدرے جھنجھلاتے ہوئے کہا ” میرا ذہن حالات سے پریشان ہوکر کئی سمتوں میں بھٹک جاتا ہے۔ میں بھی آپ کی طرح عدم تشدد اور گفت و شنید کے ذریعے مسائل کے حل کا حامی ہوں مگر اب مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے اندر کا غصہ میرے  قابو میں نہیں رہا مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں  اکیلا رہ گیا ہوں  میرے بیشتر بلوچ بھائیوں نے  بندوق اٹھالی ہے اور کچھ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں وہ سب پڑھے لکھے، باشعور، اس نظام سے باغی لوگ ہیں۔ ان کے خیال میں جو لوگ اس وقت بلوچ سرزمین پر لگی ہے اس میں تمام کتابی نصیحت آموز باتیں جل کر خاکستر ہوچکی ہیں۔

سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے شیر محمد نے اسے گھورتے ہوئے استفسار کیا، تم بھی بندوق اٹھانا چاہتے ہو؟

وہ خاموش ہوگیا اور کچھ توقف کے بعد خیالات کی عمیق گہرائی سے ایک لفظ اسکے ہونٹوں سے اُبھرا  ” نہیں ” ۔۔لیکن اگر بندوق کبھی اٹھانے پر مجبور کردیا گیا تو اس کی نال سب سے پہلے اپنے دل پر رکھوں گا اور خود سے پوچھوں گا کہ بتاؤ اے علم کے پر چاری ۔ تم نے بندوق اٹھانے میں انتی دیر کیوں لگا دی ؟

امریکہ میں یورپی استعمار اپنے کلچر کے ساتھ ذہانت اور ترقی کے گُر بھی لائے تھے ۔انکی طاقت کو تسلیم کر کے ہندی اپنی عددی برتری برقرار رکھتے ہوئے بہت سے نقاط پر مفاہمت کرسکتے تھے بہت سی  زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں  افریکی غلاموں کی مانند سرخ ہندیوں میں سے ” میلکم ایکس اور مارٹن لوتھر  کنگ ” نکل کے سامنے آسکتے تھے۔ آج یہ نسل اپنی سرزمین پر کروڑوں کی تعداد میں آباد ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس آزاری کو سنبھالنے اور پھیلانے کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔ ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں ،تشدد کی سیاست نے ہمیں ما سوائے جنازوں کے اور دیا کیا ہے ؟  جن گھروں میں کھانے کو روٹی نہیں وہاں اسلحہ موجود ہے ۔ کبھی ہسپتالوں میں جھانک کر دیکھو ایسا لگتا ہے سماج کا ہر فرد بیمار ہے  کبھی سڑک کنارے کھڑے ہو کر لوگوں کے چہروں کا بغور جائزہ لو تو ہر شخص تمھیں پریشان حال اور اندر سے کینسر زدہ دکھائی دے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply