• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • روہنگیا مسلمان ماضی اور حال کے تناظر میں۔عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی/قسط1

روہنگیا مسلمان ماضی اور حال کے تناظر میں۔عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی/قسط1

روہنگیائی مسلمان جنہیں کبھی آتش نمرود میں جلایا جاتا ہے ، تو کبھی پانی میں ڈبو کر مار دیا جاتا ہے ، کبھی زندہ انسانوں کی کھالیں ادھیڑ دی جاتی ہیں ، تو کبھی ان کے جسموں کو چھلنی   کر کے مرچ اور مسالے کا چھڑکاؤ کیا جا تا ہے ، خواتین کی عصمت دری تو روز کا معمول ہے ، پرندوں جیسے معصوم بچوں کی آنکھیں نکال دی جاتی ہیں ، انہیں تڑپا تڑپا کر لطف حاصل کیا جاتا ہے اور جسے چاہا چیر پھاڑ کر رکھ دیا جاتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جن کے ساتھ انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ؟ دراصل یہ لوگ برما ( میانمار ) کے مسلم باشندے ہیں۔

برما کی جغرافیائی پوزیشن!

اس ملک کا رقبہ اڑھائی لاکھ (261,2277) مربع میل ہے یہاں کی دار الحکومت “نیپیداو” ہے اس ملک کی سرحد جنوب میں بنگلہ دیش، شمال میں چین، لاؤس ، مشرق میں تھائی لینڈ شمال مغرب میں بھوٹان اور مغرب میں ہندوستان کے ساتھ واقع ہے ، میانمار سات صوبہ نما ریاستوں یا شہروں میں بٹا ہوا ہے جن میں میانمار کا پرانا دار الحکومت رنگون سمیت نیپیداو ، شان ، چن ، کیاہ (Kayah ) ، مون اور رخائن کی ریاستیں شامل ہیں ، رخائن اسٹیٹ کے اکثر باشندے مسلمان ہیں یہاں کے رہنے والوں کو “روہنجیا”(Rohingya ) کہتے ہیں لیکن “روہنگیا” عوام کے زبان زد ہے ، میانمار میں مختلف دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کو ملا کر کل نو اقوام آباد ہیں ، مگر برما کے آئین میں صرف آٹھ اقوام کا ذکر ہے ، ویکی پیڈیا کے اعتبار سے برما کی مکمل آبادی 54 ملین ہے ان میں %4.3 یعنی 8 لاکھ مسلمانوں کی شمولیت ہے۔

برما میں مسلمانوں کی حکومت!

برما میں چین جانے والے عرب تاجروں نے اسلام متعارف کروایا تھا ،1430 سے 1784 تک یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں شاہ شجاع بنگال کا نگراں تھا ،شاہ شجاع نے اپنے بھائی کے خلاف بغاوت کی جو نا کام ہوئی ، بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ چٹاگانگ کے راستے سے برما کے علاقے اراکان میں روپوش ہو گیا ، اسی لیے چٹاگانگ سے اراکان جانے والی ایک سڑک کو آج بھی “شجاع روڈ” کہا جاتا ہے ، بعد ازاں اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی فوج بھیج کر چٹاگانگ پر قبضہ کر لیا۔1857 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت کی ناکامی کے بعد آخری مغل بادشاہ “بہادر شاہ ظفر ” کو رنگون میں نظر بند کیا گیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے ان کی قبر آج بھی وہاں موجود ہے ۔

برما میں برطانوی حکومت!

برطانوی سامراج نے برما کو برٹش انڈیا کا حصہ بنا دیا اور بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کو برما میں لاکر بسایا جنہیں برٹش انڈین British Indian کہا جاتا تھا اور ان لوگوں سے زراعت کا کام لیا جاتا رہا ، 1937 میں برما کو برٹش انڈیا سے علیحدہ کر دیا گیا ۔دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے برما پر قبضہ کر لیا تو مقامی بدھسٹوں نے جاپان کا ساتھ دیا ، برطانوی فوج نے اراکان کے مسلمانوں کو اسلحہ فراہم کیا اور انہوں نے جاپانی فوج کے خلاف مزاحمت شروع کردی ، برطانوی حکومت نے اراکان کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے علاقے کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کر لیا جائے گا لیکن درحقیقت ان مسلمانوں کو جاپانی فوج کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا ۔میانمار کی جنگ آزادی میں برما کے بدھسٹوں کے ساتھ مل کر مسلم عوام نے بھی شرکت کی یہاں تک  کہ 4 جنوری 1948 کو برما فرنگیوں کے چنگل سے آزاد ہو گیا ۔

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ماضی کے تناظر میں!

روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم و جور کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک رواج ہے جو بیسویں صدی  سے چلتا آرہا ہے چنانچہ 1926 میں وہاں فوجی حکومت قائم ہوئی اور وہاں بارہ سو سال سے آباد مسلمانوں کو باغی قوم قرار دے کر قتل عام کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ یہ 1926 سے 1928 تک جاری رہا ، اس قتل عام میں تقریبا ایک لاکھ مسلمان شہید ہوئے ، اس کے بعد 1950 میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی ، اس میں ہزاروں مسلمان لقمہء اجل بن گئے، پھر 1977 میں برما کی غیر مسلم فوجی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف خونی آپریشن کیا ، جس کے نتیجے میں انہوں نے ایک سے دو لاکھ باشندوں کو اپنی  ہی سر زمین سے بے دخل کر دیا ، 1982 میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ برما کی حکومت نے ان کی شہریت منسوخ کر دی ، سرکاری نوکریوں سے بے دخل کر دیا ، تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے ، ان پر مسجدوں میں با جماعت نماز ادا کرنے ، حج اور قربانی کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی، مکانات کی مرمت اور ان کے آمد و رفت پر پابندی عائد کردی گئی ، مسلمانوں کی بستیوں کو تاراج کر کے ان کو کیمپ نما جھونپڑیوں میں پہنچا دیا گیا ان کی بستیوں میں بدھسٹوں کو آباد کیا گیا، مسلمانوں کی  جائیداد چھین کر بدھ بھکشو میں تقسیم کر دی گئی ، مسلمانوں پر شادی بیاہ کے سلسلے میں شرمناک قدغنیں لگائی گئیں ،افزائش نسل پر پابندی عائد کی گئی ، مسلمانوں کے قبرستان کو ان کے آباء و اجداد کے آثار مٹانے کی غرض سے تھانوں اور کچہریوں میں تبدیل کر دیا گیا، تاریخی آثارزائل کرنے کے ارادے سے اراکان کا نام رخائن اور اکیاب کا نام سیٹوے سے تبدیل کر دیا گیا ، یہی نہیں بلکہ ان لوگوں پر پھل اور انڈے تک کھانے کی پابندی ہے کہیں یہ صحتمند ہو کر حکومت کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔

1991 میں مذہبی فسادات پھر پھوٹ پڑے ، اس موقعے پر ساڑھے تین لاکھ مسلمان پناہ کی  طلب میں اپنے وطن کو الوداع  کہہ  کر ہجرت کر گئے ۔2010 کے اواخر میں فوجی ڈکٹیٹر نے شدید بیرونی دباؤ سے مجبور ہو کر ملک میں انتخاب کروایا ۔ ان انتخابات میں آنگ سانگ سوکی نامی ایک خاتون اپوزیشن لیڈر کامیاب ہوئی ، اس کی کامیابی اور مسلمانوں کے اسمبلی میں14  نشستیں حاصل کرنے سے محسوس ہوا کہ حکومت کا رویہ نرم ہو گیا ہے لیکن یہ ایک چال تھی ، کچھ عرصہ کے لیے مسلمان ایک صوبہ سے دوسرے صوبے میں  گئے تو انہیں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی ، برما کی تبلیغی جماعت بھی متحرک ہو گئی ، کچھ خاندان جن کے آباء و اجداد مسلمان تھے مگر ظالمانہ تشدد کی وجہ  سے مرتد ہو گئے تھے ، ایسے کسی خاندان سے دو عورتیں دوبارہ مسلمان ہو گئیں، بدھ جو مسلمان کے خون کے پیاسے تھے ، اور موقع  کی  تلاش میں تھے چنانچہ انہوں نے ان عورتوں کو قتل کر دیا نیز افواہ پھیلادی کہ مسلمانوں نے ان عورتوں کو قتل کر دیا ہے اور یوں مسلم کش فسادات کا آغاز کر دیا۔

اراکان کے ایک مشہور شہر تنگوک کی ایک جامع مسجد میں تبلیغی اجتماع تھا ، دوسرے شہر سے اجتماع میں شرکت کے لیے 37 مسلمان آرہے تھے ، ان بدھسٹوں نے ان لوگوں کو بے دردی سے قتل کر دیا اور فساد طول پکڑ گیا، یہاں تک کہ 22 ہزار کے قریب مسلمان شہید کر دیے گئے ۔2012 میں اراکانی بدھسٹوں نے روہنگیا کی مسلم اقلیت پر ایک بہتان لگایا کہ تین مسلمان نوجوانوں نے مل کر 26 سالہ ایک بدھسٹت عورت کی عصمت دری کی اور پھر اسے قتل کر دیا ہے یہ الزام سراسر جھوٹ پر مبنی تھا ۔یہ سارا کام بدھسٹوں نے کیا پھر ان لوگوں نے اس عورت کی لاش کو ایک مسلمان گاؤں میں پھینک دیا اس کے بعد وہاں کی حکومتی انتظامیہ نے مسلمانوں پر الزام لگاتے ہوئے تین بے گناہ برمی مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ، ایک مسلمان پر سخت تشدد کرتے ہوئے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا باقی دو مسلمانوں کو عدلیہ نے موت کی سزا سنادی ۔

یہ فرضی کہانی اس لیے گھڑی گئی  تاکہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلا کر ان کی نسل کشی کی حقیقی مہم شروع کی جا سکے ، لیکن اس وقت ان کا منظم فارمولا گمان کے مطابق کارگر نہ ہو سکا ، اپنے مقصد کی تکمیل میں پھر انہوں نے 3 جون 2012 کو حج سے واپس آنے والے 11 لوگوں کے قافلہ پر دھاوا بول دیا ، ان میں سے پانچ لقمۂ اجل بن گئے باقی چھ لوگ تشدد کے پنجے سے بچ نکلے پھر ان لوگوں نے وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت سمجھی اور کر گزرے ، بدھسٹوں نے مسافرین کی  بس کو نذر آتش کر کے تباہ و برباد کر دیا ، مجرموں نے اپنی کامیابی کا جشن سڑک پر پڑی حاجیوں کی    لاشوں پر تھوکتے اور شراب انڈیلتے ہوئے منایا ،8 جون 2012 کی شام کو دو سو سے زائد لوگوں کو زخمی کر دیا ، 60 سے زائد عورتیں عصمت دری کا شکار ہوئیں ، 9 جون 2012 کو فوجی اہلکاروں نے 100 روہنگیوں کو شہید اور 500 لوگوں کو زخمی کر دیا ۔

2013 میں فساد صرف ایک سنار سے مباحثے کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوئے ۔اکتوبر 2016 میں میانمار کی ایک جہادی تنظیم ” حرکت الیقین ” نے حکومت کے ان مظالم سے تنگ آکر تشدد کا جواب تشدد سے دیتے ہوئے سرحد پر واقع فوجی چوکی پر حملہ کر دیا جس کی زد میں میانمار کے 9 فوجی ہلاک ہوگئے ، اس کے رد عمل میں فوجی اہلکار ظالمانہ روش پر چل پڑے جس کی  لپیٹ میں معصوم روہنگیائی مسلمان بھی آگئے ، تقریبا 25 ہزار روہنگیا بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ، یہ حملہ کئی دنوں تک جاری رہا ۔2017 کے اوائل میں میانمار نے 70 فوجیوں کے ہلاک ہونے کا دعوی کیا جس کے بعد 25 اگست 2017 سے سرکاری فوج نے تمام روہنگیائی مسلمانوں  کو اپنی کارروائی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی 50 فیصد آبادی برما کے نقشے سے مٹا دی گئی ، 2100 قصبے جلا دیے گئے ، 4862 گھروں کو منہدم کر دیا گیا ، 1500 عورتوں کی عصمت ریزی کر کے فوجیوں میں تقسیم کر دیا گیا، 1000 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، 700 سے زائد مرد و خواتین کے جسموں سے گولیاں نکالی گئیں ، سینکڑوں کی ٹانگیں بارودی سرنگوں سے اڑ چکی تھی، 100 سے زائد خواتین ہجرت کے دوران کھیتوں اور دلدلوں میں بچوں کو جنم دیا۔

بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجریں ( آئی او ایم ) کے آٹھ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے بتایا کہ انہوں نے سینکڑوں خواتین کا اعلاج کیا جن کے جسموں پر جنسی حملوں کے خوفناک گھاوؤتھے تشدد کی حالت یہ تھی کہ بعض عورتوں کے نازک اعضاء پر بندوق داخل کرنے کی انسانیت سوز کوشش کی گئی ، ایک ایک خاتون کے ساتھ کم از کم سات برمی فوجیوں نے زیادتی کی ہے ان لوگوں کی حالت اتنی نازک تھی کہ انہیں جان بچانے والی طبی امداد فراہم کرنی پڑی، اور یہ ظلم و ستم کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ سدھارتھ گوتم بدھ نے ہمیشہ عالمگیر انسانی محبت کا درس دیا اور حشرات الارض اور دیگر تمام جانداروں کے حقوق لیے آواز بلند کی تھی ، مگر آج اسی گوتم بدھ کے یہ نام نہاد پیروکار برمی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی
ایک ادنی سا طالب علم جو تجربہ کار لوگوں کے درمیان رہ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply