• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • روہنگیا مسلمان ماضی اور حال کے تناضر میں۔عبدالرحمن عالمگیر کلکتوی۔آخری قسط

روہنگیا مسلمان ماضی اور حال کے تناضر میں۔عبدالرحمن عالمگیر کلکتوی۔آخری قسط

برما کے انسانی المیے کی دل خراش مناظر اور اس سے ضمیر پر پڑنے والے بوجھ سے مضطرب ہو کر اب غفلت شعار عالمی برادری اس قتل عام پر نوٹس لینے پر مجبور ہو گئی ہے لیکن یہ نوٹس الفاظ تک ہی محدود ہے ، اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا ، مسلم ممالک کے حکمراں ، سادہ لوح عوام اور کچھ مصلحت کوش علماء مسلسل تماشائی بنے ہوئے ہیں ، مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار تنظیم “او آئی سی” بھی کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ہے ، آج مسلمانوں کے عبرت کدہ بننے کی اصل وجہ عالم اسلام کے وہ باہمی اختلافات ہیں جن کے سلجھنے تک ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں  میں

جلتے گھروں کو دیکھنے والو! پھوس کا چھپر آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پہ میں بھی خوش تھا اب میرا نمبر آیا
میرے قتل پر آپ بھی خوش ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

اقوام عالم کی بے حسی!

سوال یہ کہ 57 ممالک کی اجتماعی فوج ، مسلم ممالک کی رفاہی اور خیراتی تنظیموں کو برما کے یہ مسلمان کیوں نظر نہیں آتے ، برہنہ لاشوں کی چیخیں انہیں کیوں نہیں سنائی دیتی ، یہ بے بس و مجبور و لا چار ظلم و ستم کی چکی میں مسلسل  پس رہے ہیں ، وہاں کے مسلمان لا وارث کٹ مر رہے ہیں ،ان کی آہ و بکا ان جہادی تنظیموں کو سنائی کیوں نہیں دیتی ؟ جو اپنی  طاقت   ثابت کرنےکے لیے درندہ بن جاتے ہیں یا ان کے کان سننے سے عاری ہو گے ہیں ؟ کیا ا ن کی آنکھیں قوت بصارت کھو چکی ہیں ؟ کیا امت کے جسد واحد ہونے کے دعوےافسانے ہو چکے ہیں؟

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھےکانٹا جو کابل میں
تو دہلی کا پیرو جواں بے تاب ہو جائے (مولاناظفرعلی خان)

و اللہ!! اگر اس نوعیت کی ظلم و بربریت کا ادنی سا بھی حصہ کرسچن ، یہودیوں یا کسی اور غیر مسلم کے ساتھ ہو تا تو احتجاج و مظاہرے کے ساتھ اس ملک کا وجود گولہ و بارود میں دفن کر دیا جاتا اس کی تازہ ترین مثال لندن ویسٹ منسٹر میں 22 مارچ 2017 کو ایک مسلح شخص کی فائرنگ سے صرف پانچ افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے تھے جس کے رد عمل کا یہ عالم تھا کہ پوری دنیا ماتم کدہ بن گئی  تھی ، ایفل ٹاور بجھا دیا گیا تل ابیب میں اندھیرا کر دیا گیا دبئی کی  فلک بوس عمارتوں پر مہلوکین کے نام جلی حروف میں شائع کیے گئے تھے اور ماتمی انداز میں سنا ئے گئے ، ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کے دانشوروں کی انسانیت کے تئیں فکر مندی کا یہ عالم تھا کہ گویا ان پر فکر اور کڑھن کی عالمی چادر تن گئی  ہو ۔

یہ تو کسی کی  فوتگی  پر ماتم تھا جو بالکل درست ہے لیکن کہیں کہیں تو صرف شکوک وشبہات میں مذہبی منافرت کو آڑ کر بنا کر پوری  پوری بستی کو ملبے میں بدل دیا گیا مثلا عراق کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا “کیونکہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا رہا تھا” اسی بہانے سے ہزاروں مسلمانوں کو بےدردی سے ہلاک کردیاگیا لاکھوں کی زندگی تباہ ہو کر رہ گئی اس کے بعد یہ اعتراف کیاجاتا  ہے کہ خفیہ اداروں کے پاس صحیح معلومات نہیں تھی ۔اس طرح مصر اور لیبیا کو دہشت گردی کی  پشت پناہی کے الزام میں برباد کر دیا گیا لیکن روہنگیا مسلمانوں کے لیے نہ امن فوج کی نیند میں کوئی خلل پڑتا ہے نہ نیٹو کو اس کی کوئی فکر ہے، افسوس اس دوغلی پالیسی پر جس نے دنیا کو بد صورت بنا دیا ہے ۔

برما کی حکومت کی چیمپئن نوبل انعام یافتہ سیاست دان  “آنگ سانگ سوکی” سے اب تک امید باندھی گئی تھی کہ یہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی اور جمہوریت کے لیے جدو جہد کرنے والی انصاف پسند لیڈر ہیں ان کی پارٹی “این ایل ڈی” برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کی اشک شوئی کرے گی اور مسلمانوں کی  محرومیوں کا ازالہ کرے گی لیکن تحفظ تو دور  الٹا زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا ۔معمولی اقتدار کی ہوس کی خاطر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں  ۔بہر حال بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ واجد نے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں ہمیشہ سخت پالیسی اپنائے  رکھی اور کسی بھی صورت میں ان کو قبول نہیں کیا لیکن اس بار  عالمی دباؤ کے زیر اثر ایک بازار کی ساحلی پٹی پر ان تارکین کے لیے کیمپس قائم کیے گئے ہیں ، جہاں مہاجرین برما کی زندگیاں اپنے ملک میں ملٹری کنٹرول میں قائم کیمپس کے مقابلے میں قدر ے محفوظ ہیں ۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق چار لاکھ بائیس ہزار تارکین وطن بنگلہ دیش میں مقیم ہیں امریکہ نے 32 ملین ڈالر کی علامتی امداد کا اعلان کر کے میا نمار کے سنگین بحران کو قبول کیا ہے ،یہ الگ بات ہے کہ یہ رقم اتنی کم ہے کہ سمندر میں قطرے کے برابر کہی جا سکتی ہے تاہم Something is better than nothing” “کچھ نہیں ” کے مقابلے میں یہ” کچھ” گوارا ہے جس کا بہر حال خیر مقدم ہے ، ترکی ہی وہ واحد ملک ہے جس نے روہنگیاؤں کو گلے لگایا ہے اور امداد کی پیشکش کی ہے لیکن اس تاریخی ظلم کے سدباب کا کوئی راستہ نہیں اپنایا ہے ترکی کے بعد عرب پارلیمینٹ اور عرب یونین نے بھی میانمار حکومت کی اس ریاستی دہشت گردی کی سخت مذمت کی ہے مگر افسوس کہ کچھ ممالک دہکتی  آگ میں تیل ڈالنے کا کام کر رہے، اسرائیل اسلحہ فراہم کر رہا ہے چین 2006 میں امریکہ کے توسط سےاقوام متحدہ میں میا نمار کے خلاف پیش کردہ تجاویز کی مخالفت کر رہا ہے اور وطن عزیز ہندوستان کا دل بھی مردہ ہو گیا ہے۔

ملک ہندوستان میں پناہ گزین!

ہمارا ملک مہاجرین برما کو واپس آگ کی بھٹی میں پھینکنے  کے ہر حربے استعمال کر رہا ہے دلیل دی جا رہی کہ یہ لوگ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں ان کا دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ ہے ، کرن رجیجو کے مطابق روہنگیوں کو سمندر میں پھینک دینا چاہیے راجناتھ سنگھ کا فرمان ہے کہ انسانی حقوق کا حوالہ دے کر غیر قانونی طریقے سے رہنے والوں کو پناہ گزین بتانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی کے پیش نظر جنرل آر پی سنگھ نے برمی مسلمانوں کے لیے سرحد کو مکمل طور پر سیل کر دیا  ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ 2008 سے 40 ہزار روہنگیا مسلمان اچانک ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ کیسے بن گئے، واضح رہے کہ ہندوستان میں صرف روہنگیا پناہ گزینوں کے طور پر نہیں رہتے بلکہ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق چین کے ایک لاکھ دس ہزار ،سری لنکا کے 64 ہزار 208 پناہ گزین بھی ہندستان میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔

برما کے ظالموں کی سردار آنگ سانگ سوکی کو بھی ہندوستان نے پناہ دی تھی  ۔اس کی تعلیم دہلی یونیورسٹی کے تحت لیڈی شری رام کالج میں ہوئی ہے طارق فتح اور تسلیمہ نسرین کو شر انگیزی کرنے کے لیے ہندوستان کی زمین پر کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ تبت میں 1959 کی ناکام بغاوت کے بعد ہندوستان نے تقریبا ڈیڑھ لاکھ بودھوں کو پناہ دی صرف یہی نہیں ان کے لیے رہائش   اور کاروبار کے مواقع فراہم کیے گئے، دھرم شالہ میں دلائی لامہ کو جلا وطن حکومت چلانے کی اجازت دی گئی جو کہ ابھی بھی قائم ہے ، حکومت نے تبتیوں کے لیے اسکولوں میں مفت تعلیم، اسکالر شپ اور میڈیکل وسول انجینئرنگ میں چند سیٹیں بھی مختص کر رکھی ہیں اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے چکما ہندوؤں کو پناہ دی گئی  تھی۔

حتی کہ سری لنکن تامل پناہ گزینوں کو بھی بھارت نے پناہ دے رکھی ہے ان میں “ایل ٹی ٹی ای ” جیسی دہشت پسند تنظیموں کے حمایتی بھی شامل ہیں اور انہی پر سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ہلاک کرنے کا الزام بھی ثابت ہوا ہے لیکن ان لوگوں کے لیے راہیں کشادہ ہیں ، ان پر دہشت گردی کی تختی نہیں لٹکائی گئی ۔جہاں تک روہنگیا مسلمانوں کی بات ہے ان میں نہ حوصلہ ہے نہ ہمت اور نہ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ سکیں وہ بیچارے اپنی بھوک تو مٹا نہیں سکتے ہندوستان کی سلامتی کو کیسے مٹا پائیں گے۔ وہ لاچار سر تو اٹھا نہیں سکتے ہتھیار کیا اٹھائیں گے یہ محض پروپیگنڈہ ہے ، جسے زرخرید رکھیل میڈیا نے مشتہر کیا ہے موجودہ حالات میں ہندوستان میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ اس سے نسلی اور مذہبی نفرت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔

اقوام عالم کی عموما اور برما کے تمام پڑوسی ممالک کی خصوصا ً اخلاقی و قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ برما کے مہاجرین کو پناہ گزین کے طور پر قبول کرے انہیں عزت کے ساتھ رہنےسہنے کی آزادی دی جائے تعلیم اور کاروبار کے مواقع فراہم کیے جائے علاج و معالجہ کی بھر پور سہولتیں دی جائیں ۔

اقوام متحدہ کی 11دسمبر 1946 کی قرار(1)96 کے مطابق نسل کشی چاہے یہ زمانہ امن میں ہو یا جنگ میں بین الاقوامی قانون کے مطابق جرم ہے اقوام متحدہ کنونشن پر دستخط کرنے والے تمام اس بات کے پابند ہیں کہ وہ نسل کشی کے شکار لوگوں کو بچائیں اوران کی مدد کریں نیز یہ مجرمانہ فعل کرنے والوں کو روکیں۔ عالم اسلام بلکہ پورے عالم کے انسان دوست ممالک سے مطالبہ ہے کہ وہ برما کی حکومت پر سفارتی اور اخلاقی دباؤ ڈالے تاکہ وہ انسانیت کش حرکتوں سے باز آئے عالمی عدالت International Court of Justice روہنگیا مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنے والے انسانیت سوز اور ظالمانہ قانون کو ختم کرے اور ان کی شہریت اور حقوق کو بحال کرے اس لیے یقیناً  عالم اسلام کے رہنماؤں کو متحد و منظم ہو کر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور “رابطہ عالم اسلامی”، “مؤتمر عالم اسلامی” اور “او آئی سی” تنظیمیں جن حسین مقاصد کے لیے بنائی گئیں تھیں اسےبیدار کرنا ہوگا تاکہ امت مسلمہ کے درپیش مسائل و چیلنجز کا سامنا کر سکیں ،مسلمانوں کے حقوق و مفادات اور تحفظ و بقا کے لیے معرکہ الآراء اور تاریخ ساز اقدامات اٹھائیں جا سکیں یہ کام نا ممکن نہیں پس ذرا محنت اور اخلاص کی ضرورت ہے ۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاکر کا شغر

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان چھوٹی بڑی تعداد میں موجود ہوں ان کے درمیان محبت والفت اور مضبوط اتحاد پیدا فرما ، تاکہ باطل طاقتوں کو پوری قوت کے ساتھ جواب دے سکیں ہر تمام اقوام عالم کو برما و دیگر جگہوں پر ہو رہے ظلم پر فوری مثبت ٹھوس کارروائی کی  جائے اور متاثرین کو تمام وسائل فراہم کیے جائیں اور ان کے نقصانات کی بھر پائی  کی  جائے تاکہ ان مظلوموں کی زندگی معمول پر آسکے -آمین

Facebook Comments

عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی
ایک ادنی سا طالب علم جو تجربہ کار لوگوں کے درمیان رہ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply