دور کے بوٹے سہانے۔۔حافظ صفوان محمد

پار سال کی بات ہے، ایک عزیز کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ چند خواتین افسریں کسی کام سے آئیں۔ کھانے کا دور چلا تو ایک خاتون نے اِدھر اُدھر کی باتوں میں سوہانجنے کا قصہ چھیڑ دیا۔ اب جو اس نے سوہانجنے کے فضائل بتانا شروع کیے تو یہی لگا کہ سوائے موت کے ہر بیماری کی شفا اسی درخت اور اس کے پتوں میں ہے۔ کھانے میں کئی طرح کا چکن تھا لیکن سوہانجنائی تقریر نے چکن کا ذائقہ گھاس برابر کر دیا۔

اس خاتون کی کمبختی اور ہم مابدولت کی خوش قسمتی کہ دوسرے ہی دن مجھے بہاول پور میں پروفیسر طیب قریشی صاحب کے ہاں جانے کا موقع ملا۔ بتانے لگے کہ وہ مدت سے الفلفا پی رہے ہیں اور اس لیے پی رہے ہیں کہ انھیں اس کے خواص کا میرے والد عابد صدیق صاحب نے بتایا تھا۔ پھر اس کے خواص کا ذکر شروع کیا تو پائپ پیتے پیتے ایک دم اٹھ کر اندر گئے اور پینگوئن سیریز کی ایک پرانی سی کتاب لے آئے۔ اس میں سے الفلفا کا موضوع نکالا جو جگہ جگہ سے سرخ اور نیلی پنسل سے انڈرلائن کیا ہوا تھا۔ اب وہ پڑھ پڑھ کر بتا رہے ہیں اور ابا جان کا ذکر کر رہے ہیں۔ مجھے ایک دم شرارت سوجھی۔ اب میں نے ایک خاصیت بتائی کہ الفلفا کا  یہ فائدہ بھی ہوگا۔ کہنے لگے بالکل۔ پھر میرا بتایا ہوا فائدہ کتاب سے پڑھ کر سنانے لگے۔ ابھی یہ ختم ہوا نہ تھا کہ میں نے اگلا فائدہ بتا دیا۔ وہ حیران ہوئے اور کہا کہ ہاں یہ بھی ہے، اور پھر کتاب میں سے وہ ڈھونڈنے لگے۔ میں نے ایک تیسرا فائدہ بھی بتا دیا۔ انھوں نے کتاب بند کی اور کہا کہ تم نے کہیں اس کے خواص پڑھ رکھے ہیں۔ اب وہ کیا جانیں کہ یہ خواص میں نے کسی کتاب میں نہیں بلکہ آں محترمہ افسرانی صاحبہ کی کتاب الاقوال سے براہِ راست سنے تھے یعنی From the mare’s mouth۔ آپ اسے گھوڑی نامہ کہہ لیجیے!
مدت ہوئی جنوبی پنجاب کا ایک مولوی نما دوست ایک ٹھنڈے ٹھار ملک میں جا آباد ہوا جب میں نے امریکہ کا لاٹری ویزہ اس لیے پھاڑ دیا تھا کہ ہم اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں اور امریکہ کافرستان ہے۔ ہمارے یہ دوست آموں کے چھلکوں کا سفوف بیچتے ہیں اور اس میں، بقول ان کے، اپنی طلاقتِ لسانی سے وہ سب خواص پیدا کرچکے ہیں جو پینگوئن سیریز میں الفلفا کے لکھے ہیں یا میں نے افسرانی صاحبہ کی تقریرِ دلپذیر میں سوہانجنے کے سنے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تجربے کی بات یہ ہے ہر درخت کے پتوں میں خواص ہوتے ہیں، اور یہ درخت جتنا دور دراز کا ہوگا یا کمیاب ہوگا اتنے ہی اس کے خواص حیران کن ہوں گے اور امرت دھارا۔ حد یہ ہے کہ جن پتوں کو بکریاں بھی نہیں کھاتیں انسان نام کا جانور ان کو بھی کھا جاتا ہے۔ دور کیوں جائیں، کسی بھی سبز چارے کو ساگ کا نام دے لیں، بھینسیں بکریاں منہ دیکھتی رہ جائیں گی اور انسان اسے پکاکر چر رہا ہوگا۔ پچھلے چند دن میں انسانوں نے سنامکی نام کا چارہ ختم کر دیا ہے اور اب اپنے پیٹ کا علاج کسی اور گھاس میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ دور کے بوٹے سہانے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply