حل کی تلاش(3)۔۔وہاراامباکر

“جو تبدیلی ہم پہلے سو دنوں میں لا چکے ہیں، ہمیں اس پر فخر ہے۔ ابھی کرنے والا کام باقی ہے۔ اگلے سو روز میں ہم ایک لائبریری بنائیں گے جس میں بتایا جائے گا کہ میں نے پہلے سو دنوں میں کیا کارنامے سرانجام دئے۔ اور اگلے سو دن اتنے زیادہ کامیاب ہوں گے کہ سو روز کا کام 72 دنوں میں مکمل ہو جائے گا۔ اس سے اگلے روز میں آرام کروں گا”۔

یہ الفاظ امریکی صدر اوبامہ کے ہیں جو انہوں نے وائٹ ہاوٗس میں مذاق کرتے ہوئے کہے۔ اس مذاق کے پیچھے ایک حقیقت چھپی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بہت سے لوگ ایک شخص سے توقعات رکھتے ہیں۔

ہمیں لیڈروں کی طاقت پر اتنا بھروسہ ہوتا ہے کہ ہر ہونے والی ٹھیک اور غلط چیز کو ان سے منسوب کیا جاتا ہے۔ (لیڈر خود اس اپنی کامیابی کے لئے اس عام مغالطے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بلندوبانگ دعووں والے سلوگن کامیابی کے لئے لازم ہیں)۔ ہر ملک میں ہر صدر، وزیرِاعظم، چیف اسی نعرے پر آتا ہے کہ وہ پرانی سیاست کو تبدیل کر دے گا۔ نیا وقت آئے گا اور کامیاب ہونے کے بعد اس کی مقبولیت کم ہونے لگتی ہے۔ (امریکی صدارتی پول کی تاریخ سے یہ ٹرینڈ بہت واضح ہے)۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم غلط لیڈروں کا انتخاب کرتے رہتے ہیں بلکہ یہ کہ ہم ان سے وہ توقعات وابستہ کرتے ہیں جو غیرحقیقی ہیں۔ اچھے لیڈر اس سے واقف ہوتے ہیں کہ وہ کچھ زیادہ نہیں کر سکتے اس لئے وہ اپنے ساتھ ماہرین کو رکھتے ہیں۔ اگلا مسئلہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کے پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے ماہرین بھی کافی نہیں۔

ماہرین کے مسئلے پر فلپس ٹیٹلوک نے ایک ٹیسٹ کیا۔ انہیں 1984 میں یہ کام دیا گیا تھا کہ وہ اندازہ لگائیں کہ سرد جنگ میں ریگن کے اقدامات کا سوویت یونین کا کیا ردِ عمل ہو گا۔ ٹیٹلوک نے اس بارے میں ماہرین سے رابطہ کیا اور اس پر حیران تھے کہ اس پر چوٹی کے ماہرین کی آراء ایک دوسرے سے متضاد تھیں۔ ماہرین کا اختلاف حیرت کی بات نہیں لیکن اہم ترین معاملے کی بالکل بنیادی شناخت پر؟ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کوئی ایک ماہر اتنا زیادہ اہم نہیں۔

ٹیٹلوک نے اس پر بس نہیں کیا۔ ماہرین کی آراء پر ان کی بیس برس کی تحقیق ہے۔ تین سو ماہرین سے وہ سیاسی اور اقتصادی ٹرینڈ کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔ اس میں پولیٹیکل سائنٹسٹ، اکانومسٹ، سفارتکار، ماہرینِ قوانین شامل تھے۔ یہ تھنک ٹینک تھے، فیصلہ ساز، اکیڈیمک اور جرنلسٹ تھے۔ ان میں سے نصف سے زیادہ اپنے شعبوں میں پی ایچ ڈی تھے۔ ان کی آراء کو جج کرنے کے لئے ایک پیمانہ بنایا۔ ایسے جوابات جن کی پیمائش کی جا سکے۔ ستائیس ہزار سے زیادہ جواب اکٹھے کئے۔ انتظار کیا کہ پیشگوئیاں کتنی کامیاب رہتی ہیں۔ نتائج اچھے نہیں رہے اور مستقبل کی پیشگوئی میں ان کی ناکامی اس بات کی علامت تھی کہ ہم حال کی پیچیدگیوں کو زیادہ نہیں سمجھتے۔

کیا ماہرین ناکارہ ہیں؟ ایسا نہیں۔ ٹیٹلوک نے اس کے مقابلے میں کنٹرول گروپ بنایا۔ اس میں انڈرگریجویٹ شامل تھے۔ ماہرین کی پرفارمنس اس گروپ سے بہتر رہی تھی۔ یعنی ماہر ہونا فائدہ تو دیتا تھا لیکن اس سے اتنا نہیں جتنا تصور کیا جاتا ہے۔ (ٹیٹلوک کی دریافت میں ایک اور مزیدار نکتہ تھا۔ ماہرین کے گروپس میں سب سے زیادہ غلط وہ تھے جو ٹی وی پر زیادہ مقبول تھے)۔

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ماہرین بے کار ہیں؟ بالکل نہیں۔ ڈیٹا یہ تو واضح طور پر دکھاتا تھا کہ ماہرین عام لوگوں سے زیادہ ٹھیک ہوتے ہیں۔ ذہین، تعلیم یافتہ اور تجربہ کار پروفیشنل کی بصیرت اچھی راہنمائی کر سکتی ہے۔ مسئلہ کہاں ہے؟ ماہرین کی نااہلی کا؟ نہیں۔ مسئلہ اس دنیا کا ہے جہاں وہ رہتے ہیں۔ جہاں ہم سب رہتے ہیں۔ یہ اتنی سادہ ہے ہی نہیں کہ اس کا کامیابی کے ساتھ تجزیہ کیا جا سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو پھر اس دنیا کے مسائل کیسے حل کئے جائیں؟ کیا اس کی کامیابی کے لئے ہم کامیاب اداروں یا لوگوں کی کہانیاں دیکھ سکتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔

ٹوم پیٹرز اور رابرٹ واٹرمین نے “اعلیٰ ترین کی تلاش میں” کے عنوان سے 1982 میں کتاب لکھی۔ اس میں 43 کمپنیوں کا تفصیلی ذکر تھا۔ کامیاب ترین کمپنیاں آخر ایسا کیا کرتی ہیں کہ وہ کامیاب ہیں۔ اس پر ڈیٹا لے کر تجزیہ کیا گیا تھا۔ یہ کتاب بہت مشہور ہوئی۔ کامیابی کے راز آشکار کرنے کی اس کتاب نے انہیں مینجمنٹ کی دنیا میں گرو بنا دیا۔

“اعلیٰ ترین کے ساتھ کیا ہوا؟” کے عنوان سے بزنس ویک میں ایک آرٹیکل 1986 میں شائع ہوا۔ اس میں انہی کمپنیوں کا دوبارہ تجزیہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک تہائی شدید مشکلات کا شکار تھیں۔ اعلیٰ ترین ہونا ایک عارضی خاصیت نکلی۔

ایسا کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کامیابی کا راز جاننے کے لئے کامیابی کو نہیں، ناکامی کو دیکھنا پڑتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرنٹنگ پریس گوٹنبرگ نے 1455 میں ایجاد کیا۔ دنیا کو بدل دینے والی اس ایجاد کے موجد کا گوٹنبرگ بائبل کا پراجیکٹ ناکام رہا۔ ان کا کاروبار ختم ہو گیا۔ پرنٹنگ پریس کی صنعت ویانا کی طرف چلی گئی۔ 1469 میں ویانا میں بارہ چھاپہ خانے تھے۔ اگلے تین سال میں ان میں سے بھی نو ناکام ہو گئے۔

جب گاڑیوں کی صنعت شروع ہوئی تو امریکہ میں دو ہزار کمپنیاں اس صنعت کے بارے میں تھیں۔ ننانوے فیصد ناکام رہیں۔ ڈاٹ کام کا بلبلہ آیا اور ان گنت بزنس بہا لے گیا۔ آج امریکہ میں ہر سال دس فیصد کاروبار ناکام ہوتے ہیں۔ بہترین کاروباری ماحول میں گروتھ کے سیکٹرز میں ناکامیاں مسلسل ہیں اور بہت سی ہیں۔

ٹوسٹر کی تاریخ بھی ناکامیوں سے بھری ہوئی ہے۔ 1893 میں ایجاد ہونے والا ایکلپس ناکام رہا۔ اس کے گرم کرنے والے حصے پر زنگ لگ جاتا تھا۔ پگھل جاتا تھا اور آگ پکڑ لیتا تھا۔ اس کو مارکیٹ کرنے والی کمپنی اب موجود نہیں۔ پہلا کامیاب ٹوسٹر 1910 میں آیا جس میں نکل کروم کا مرکب تھا لیکن اس میں بھی کمزوری تھی۔ آگ لگنا اور کرنٹ لگانے کا خطرہ تھا کیونکہ اس کا گرم کرنے والا حصہ چھپا ہوا نہیں تھا۔ اس میں کئی دہائیاں لگیں کہ سپرنگ والا موجودہ ڈیزائن بنے۔ اور اس دوران بہت سے بنانے والوں کے بزنس ختم ہو گئے یا دیوالیہ ہو گئے۔

تو پھر ان سب ناکامیوں کے باوجود یہ سب کیسے چل رہا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ماہرین غلطیاں کرتے ہیں (اور بہت سی کرتے ہیں) تو اس سے ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانی ججمنٹ کی بنیاد پر کی جانے والی بہترین پلاننگ میں غلطیاں ہوں گی۔ ماہرین کی غلط رائے خواہ ماوٗزے تنگ کی عظیم چھلانگ کی صورت میں ہو، آئی بی ایم کا آپریٹنگ سسٹم مائیکروسوفٹ کو دینے کا فیصلہ یا یاہو کا گوگل کو خریدنے سے انکار۔ ناکامیاں ڈھونڈنا کامیابیوں سے زیادہ آسان ہے۔ (ایسا ماہر جسے بہت اعتماد ہو کہ اس کی پیشگوئی ٹھیک ہو گی، ماہر نہیں ہوتا)۔

تمام بڑے بزنس، خواہ تسلیم کرنے سے ہچکچائیں، بہت سی ناکامیوں پر بنے ہیں۔ گوگل، مائیکروسوفٹ، جنرل الیکٹرک، پروکٹر اینڈ گیمبل کے اندر ناکامیوں کی فہرست بنائی جا سکتی ہے۔

تو پھر کامیابی کے لئے راہنمائی کہاں سے لی جائے؟ یہ راہنمائی ہمیں فطرت سے ملتی ہے۔ اور وہ یہ کہ ناکامیاں ہی تو کامیابیوں کا راز ہیں۔ بائیولوجسٹ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments