ماحولیاتی معاشیات ۔۔جاویدخان

جون کے گرم دن،گرم نہیں ہیں۔آسمان پر اَبر روز نکل آتاہے،برستاہے پھر غائب ہوجاتاہے۔ایساپہلے کم ہی ہوتاتھا۔جون جولائی گرم بیتاکرتے تھے۔بزرگ بتاتے ہیں جولائی تک اس بلوری ندیوں کے دیس میں آب رواں سوکھ جایاکرتے تھے۔مگر کبھی کبھارہی۔ایک نئی وبانے انسانوں کومشکل میں ڈال دیاہے۔زندگی بے بس سی نظر آتی ہے۔کئی لوگ اس انجان بیماری کی بھینٹ چڑھ گئے۔نہ جانے کتنے اس خاموش قاتل کی زد میں آئیں گے۔تالابند ی یعنی لاک ڈاؤن نے ماحول میں تبدیلی لائی ہے۔ندی نالے اَور دریاجو گندے شاپزز سے بھر گئے تھے۔اس سارے عرصے میں اس عذاب سے دُور رہے ہیں۔اب ندی نالوں میں صاف پانی بہتا ہے اور نیلگوں آسمان خوش منظر ہے۔

کئی خوش گلو پرندے روز صبح بولتے ہیں۔کوکو،پی کہاں،پیہہا،فاختائیں،بلبلیں اَور ایسے پرندے جوابھی کسی کتاب کی فہرست میں نہیں آئے۔فطرت کاچکر ایک متوازن ماحول کی علامت ہے۔اَور متوازن ماحول ایک متوازن معاشی اَور سماجی نظام زندگی کی علامت ہے۔معاشیات کے غیرمتوازن چکر نے فطرت کے چکر (سائیکل) کو غیر متوازن کیا ہے۔سکول دَور میں،نصاب میں پڑھا کرتے تھے۔مٹی سے گھاس نکلتی ہے۔۔۔گھاس کو ٹڈی کھاتی ہے۔۔۔۔ٹڈی کوچڑیا۔۔۔چڑیاکو عقاب کھاتاہے۔۔۔۔بلکہ کئی پرندے کھاتے ہیں۔اَیسے ہی مٹی سے گھاس۔۔۔گھاس کوجانور۔۔۔اَور جانوروں کو اِنسان کھاتے ہیں۔۔۔پھر مٹی کی گھاس جو فصلیں بھی ہیں۔۔۔۔۔انھیں بھی انسان اَور جانور کھاتے ہیں۔یہ فطرت کاخوب صورت چکر ہے۔اس میں سے ایک کڑی بھی گم ہو جائے تو فطرت کانظام غیر متوازن ہو جاتاہے۔اَگر اس سارے عمل کو دیکھیں تو ایک اصطلاع سامنے آتی ہے ”ماحولیاتی معاشیات“۔ماحول اور معاشیات کاگہر اتعلق ہے۔جیسے ماحولیاتی بائیولوجی ہے،ماحولیاتی کیمسڑی ہے ایسے ہی ماحولیاتی معاشیات ہے۔کامریڈ ماؤ کے متعلق ایک کہانی مشہور ہے۔کہاجاتاہے ان کے سامنے ایک مقدمہ آیا کہ پرندے اتنے ٹن سالانہ خوراک کھالیتے ہیں۔لہٰذاجو چڑیاں بیج کھاتی تھیں انھیں مارنے کاحکم دیا گیا۔چین کے جس بھی علاقے میں یہ حکم نافظ ہو ا۔وہاں ہر بڑے اَور بچے کے ہاتھ میں غلیل تھی۔مگر اُس سال غلہ سب سے کم ہوا۔کامریڈ ماوزے تنگ نے پھر پوچھا چڑیاں تو ماردی گئیں غلہ کیوں کم ہوا۔؟ بتایا گیاکہ حشرات نے فصلیں کھالیں۔چڑیاں حشرات کھاجاتی تھیں اَور فصلیں محفوظ رہتی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں ٹڈی دل نے حملہ کیاہے۔بلکہ وہ تمام راستے جن پر یہ دَل گزرتے ہیں۔وہاں وہاں فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔فطرت کے چکر میں یہ غیر متوازن عمل ایک کڑی گم ہونے کی وجہ سے ہوا۔وہ کڑی ہے چڑیاں،پرندے،پنچھی جو حشرات کھاتے ہیں۔چڑیوں پر دو طرح کی اُفتاد پڑی ہے۔ایک کھاد آلود بیچ،زہریلی سپرے،آلودگی۔دوسری بے جاشکارہے۔حال ہی میں ایک دوست جو کراچی سے ہیں ملے۔انھوں نے بتایا آپ کے راولاکوٹ میں بلبلوں کے علاوہ ایک پرندہ ہوتاہے۔آپ اسے ”لم پُچھا“ یعنی لمبی دُم والاکہتے ہیں۔وہ طوطے کی نسل سے ہے اور بہت مہنگابکتاہے۔پہلے وہ آپ کے علاقوں میں عام ہوتا تھا۔اب آہستہ آہستہ معدوم ہو رہا ہے۔یہ انکشاف میرے لیے حیران کن تھا۔لمبی دم والایہ طوطا جسے ہم پہاڑیے ”لم پُچھا“ کہتے ہیں۔واقعی عام ہوتا تھا۔اَور عام طوطوں سے زیادہ بڑا اَور خوب صورت ہے۔خاص کر سردیوں میں اُس کے جھنڈٖ کے جھنڈ عام پھرا کرتے تھے۔سردیوں میں وہ زیادہ چہکتا تھا۔لیکن وہ آہستہ آہستہ گم ہو تاجارہاہے۔کوئی خفیہ ہاتھ اسے آہستگی سے درختوں سے اچک رہاہے۔اک لمبی دم والایہ طوطا ہی نہیں کئی پرندے آہستہ آہستہ گُم ہور ہے ہیں۔عجیب بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ پاکستان میں سوشل میڈیا یافیس بک پر ایسے بہت سے گرو پ بنے ہوئے ہیں جو پرندوں کے بارے میں معلومات مہیاکرتے ہیں۔مگر دراصل وہ پرندوں کی نایاب نسلوں کو کھوج کر انھیں مہنگے ہاتھوں دے دیتے ہیں۔مجھے ایسے ایک گروہ سے واسطہ پڑ ا۔انکشاف تب ہوا۔جب گروپ کے اندرسے ہی ایک بندے نے یہ راز پھوڑ دیا کہ یہ لوگ نایاب پرندوں کی تصاویر لگاتے ہیں۔ان علاقوں سے جہاں یہ پرندے پائے جاتے ہیں۔لوگوں سے ان کے مقامی نام معلوم کرتے ہیں۔پھر اپنے نمائندے وہاں بھیج دیتے ہیں۔یاپھر وہاں پر موجود اپنے نمائندوں سے پرندوں کو سمگل کرتے ہیں۔پرندوں کو پالتو بنانا کوئی برا فعل نہیں۔انسانوں نے اعلی ٰ نسل کے جانوروں اَور پرندوں کے علاوہ فصلوں کو پالتو بنایاہے۔مگر ایک متوازن ماحول کو غیر متوازن کردینا ناقابل معافی جرم ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی معاشیات بہ طور مضمون پڑھائی جانی چاہیے۔نہ صرف پاکستان بل کہ وہ تما م ممالک،علاقے جہاں ماحولیاتی معاشیات کاسمجھنا ضروری ہے۔اَگر ماحولیاتی معاشیات پر توجہ ہوتی تو آج افریقہ،ایران انڈیا اَور خاص کر پاکستان کے کسان روزانہ پینتیس ہزار کااناج ٹڈی دَل کے آگے مجبوراً نہ پھینکتے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply