• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کورونا کی کہانی کورونا ہی کی زبانی۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

کورونا کی کہانی کورونا ہی کی زبانی۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

میں وائرس قبیلے کا سردار “کورونا” آپ سے مخاطب ہوں ۔ کرۂ ارض پر ہماری تعداد کا تخمینہ اربوں میں لگایا جاتا ہے۔ ہمیں صرف انتہائی طاقتور الیکٹرانک خوردبین ہی کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے ایک روسی سائنس دان”ایوانوسکی” نے 1892 میں دریافت کیا تھا۔ اس وقت ہمارے قبیلے کے اس شاخ کو”ٹوبیکو موزئیق وائرس” کا نام دیا گیا پھر رفتہ رفتہ بحیثیت مجموعی ہمیں وائرس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ وائرس جو لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی”زہر” کے ہیں ۔ وائرس وہ خوردنامیہ ہے جو جسم میں داخل ہو کر خلیہ کے اندر گھس جاتاہے ۔ اور اس کی مشینری کو اپنے کنٹرول میں کرلیتاہے۔ پھر ہم وائرس اس سے وہ مرکبات بنوانے لگتے ہیں جن کی ہمیں اپنی افزائش کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ اور بے چارہ میزبان خلیہ وہ بھی اپنے جسم کے لیے کام کرنے کے بجائے ہمارے لیے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر ہم آسانی کے ساتھ خلیہ میں زہر” ٹاکسن” چھوڑ دیتے ہیں جو انسانی جسم کو نقصان پہنچا کر اسے مہلک امراض میں مبتلا کر دیتا ہے جن سے پھر جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس طرح انسانیت گروہوں میں تقسیم ہے مثلاً کالے اور گورے، عربی اور عجمی، پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک اور شیعہ سنی وغیرہ اسی طرح اس ظالم انسان نے گروہ بندی کرکے ہمارے بھی اتحاد و اتفاق کی چادر کے دو ٹکڑے کردیے یعنی ایک ڈی این اے وائرس جو” ڈی آکسی رائبوز نیوکلک ایسڈ” کا مخفف ہے اور دوسرا آر این اے وائرس جو “رائبو نیوکلک ایسڈ” کا مخفف ہے۔ ڈی این اے وائرس کے جھنڈے تلے” چیچک کا وائرس”بیکٹریوفیج” یعنی بیکٹیریا کو کھانے والا وائرس اور بہت سارے دوسرے وائرس جمع کیے۔ جبکہ آر این اے وائرس کی سلطنت میں ” آنتوں کا وائرس، گلے کا وائرس” اور بہت سارے دوسرے وائرس بزور تحقیق شامل کر دیے گئے۔

ہم وائرس مختلف جسامت کے ہوتے ہیں ہم میں سب سے چھوٹا وائرس منہ اور کھر کی بیماری کا وائرس ہوتا ہے جس کی جسامت 20 سے 30 ملی مائیکرون تک ہوتی ہے۔ اور ہمارا بڑے سے بڑا وائرس جانوروں کی چیچک کا وائرس ہوتا ہے جس کی جسامت 300سے450 ملی مائیکرون تک ہوتی ہے۔ ہم وائرس صرف زندہ اجسام کے اندر رہ سکتے ہیں اور وہیں  سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ جس خلیہ کے اندر ہم حملہ کرتے ہیں وہیں سے خامر”انزائم” لیتے ہیں وہیں سے ” پروٹین” لیتے اور خامروں کی مدد سے پروٹین کو غذائی استعمال میں لاتے ہیں۔

ہم وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے خفیہ حالت میں رہتے ہیں اور مریض اس دوران کسی قسم کی بیماری کی علامت محسوس نہیں کرتا اس عرصہ کے دوران وائرس اپنی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں اور ایک وائرس سے تقریباً دو سو تک کے وائرس بن جاتے ہیں۔ اور جسم کے اندر زہر” ٹاکسن” پیدا کرتے ہیں ۔ ہماری اس پوری پراسیس کے دوران مریض کسی قسم کی کوئی نئی بات محسوس نہیں کرتا۔

ہم وائرس خود حرکت نہیں کرسکتے بلکہ کسی دوسری  چیز کی مدد سے نقل و حرکت کرتے ہیں۔ ہم وائرس بیمار شخص سے تندرست شخص تک براہِ راست پہنچ جاتے ہیں جیسا کہ جنسی یا جلدی امراض کے ذریعے یا وائرس کے شکار شخص کو چھونے سے یا ہوا میں چھوٹے ذرات کے ذریعے سے اور یا کسی مریض کی استعمال شدہ چیزیں مثلاً  تولیہ، صابن وغیرہ بھی ہماری منتقلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں  ۔

میں وائرس قبیلے کا سردار کورونا آپ سے مخاطب ہو۔ ہم وائرس قبیلے کی شاخ ” انفلوئنزا” کے ایک خاندان کورونا سے ہے۔ ہمارے خاندان کورونا کو پہلی بار 1930 میں مرغیوں میں دریافت کیا گیا۔ پھر ہم نے 1940 تک چوہوں کو اپنی گرفت میں کرلیا اور 1960 میں پہلی بار ہم نے انسانوں کو شکار کرنا شروع کیا۔ ہم سردی کے نزلہ سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہو کر داخل ہوئے تھے۔ اس وقت ہمیں انسانی کورونا وائرس” ای 229 ” اور “اوسی43″ کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد 2003 میں ہمیں سارس کورونا وائرس کا نام دیا گیا۔ پھر 2004 میں ہمیں” ایچ کوویڈ این ایل 63″ جبکہ 2005 میں ہمیں ” ایچ کے یو 1″ اور 2012 میں ہمیں”میرس کوویڈ” کا نام دیا گیا۔ جب حسب معمول ہم نے دسمبر 2019 میں ایک بار پھر حملہ کیاتو خوب دہشت پھیلائی لیکن جوں جوں  ہم آگے بڑھتے گئے ہماری حیرانگی میں اضافہ ہوتا گیا ہم نے دیکھا کہ کسی بھی محاذ پر ہمارے سامنے  مزاحمت نہیں کی جارہی اور آسانی کے ساتھ بڑے بڑے سپر پاورز ہمارے زیر نگیں آ رہےہیں۔ لیکن جب ہم نے حالات کا بنظرغائر مطالعہ کیا تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوا کہ ہم نے کسی کو زیر نہیں کیا بلکہ ساری ترقی یافتہ قومیں خود ہی ہمارے سامنے دوزانوں ہو گئے ہیں۔

میں وائرس قبیلے کا سردار کورونا یہ گزارش کرتا ہوں کہ ہمیں ایک سازش کے تحت لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ ہمیں بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمیں جان بوجھ کر چنگیز خان اور ہٹلر سے زیادہ ظالم ڈکلیئر کیا جارہا ہے۔ بھلا ہم کیسے اتنا قتلِ عام کرسکتے ہیں ہم بھی تو خدا کو جوابدہ ہے۔ اور ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ ہمیں اتنا خطرناک بتایا جارہا ہے کہ ہماری وجہ سے” بیت اللہ” کا طواف رک گیا، مسجد نبوی کی زیارت بند ہو گئی، بیت المقدس کی گلیاں سنسان ہو گئی، ویٹی کن کی چرچ کو تالے لگ گئے، شری کرشن جیسے مقدس ہستی کے مندر کی گھنٹیاں خاموش ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سارے مقدسات کے ماننے والے ہمیں بددعائیں دے رہے ہیں۔

لیکن میں وائرس قبیلے کا سردار کورونا ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہوں اور اس بات کی وضاحت کرتا ہوں کہ ہمارے کندھوں پر بندوقیں رکھ کر اپنے مفادات حاصل کیے جارہے ہیں اور اس کے پیچھے دنیا کے وہ چند کھرب پتی لوگ ہیں جو کورونا کی آڑ میں انسانیت کی طرزِ زندگی بدل کر دولت کمانا چاہتے ہیں۔ آپ اس بات پر غور کریں کہ کیسے صنعتی انقلاب کے بعد ان جیسے چند لوگوں نے مشرق سے مغرب تک کے تمام تہذیبوں کو ایک ہی لڑی میں پرویا اور کیسے لق و دق میدانوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں اور سر بفلک پہاڑوں پر بسنے والوں کی زندگیوں کو جدید طرز سے آراستہ کیا۔ اور اب موجودہ دور کے یہ قارون نما کھرب پتی لوگ کورونا کو دلیل بنا کر سوئی دھاگہ سے لیکر ہوائی جہاز تک ہر چیز کا وائرس فری ہونا لازمی قرار دے رہے ہیں۔ اور یہ ساری وائرس فری چیزیں ان چند لوگوں کی ملکیت ہوگی جسے دنیا کے ساڑھے سات ارب لوگ استعمال کریں گے۔ یہ وہ چند لوگ ہی ہوں گے جو کورونا کے خلاف نام نہاد ویکسین بنائیں گے جس سے بھی انہیں ٹریلین ڈالرز کا فائدہ ہوگا۔

میں وائرس قبیلے کا سردار کورونا یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ کائنات میں بے شمار اقسام کے وائرس ہر وقت ہر جگہ موجود رہتے ہیں اور ہر شخص کے اندر یہ وائرس رسائی حاصل کرتے ہیں مگر ہر فرد بیمار نہیں ہوتا کیوں؟ اس لیے کہ قدرت نے ہر جسم کے اندر وائرس کے خلاف مقدور بھر قوت مدافعت رکھا ہوتا ہے لہذا آپ کو چاہیے کہ اپنے قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے اپنے جسم میں وٹامن اے اور ڈی کو بیلنس میں رکھے پھر کوئی بھی وائرس آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ علمائے طب کسی  بھی مرض کا علاج مصنوعی قوت مدافعت پیدا کرکے ہی کرتے ہیں جس کے لیے مخصوص مرض کے خوردنامیوں کی بیماری پیدا کرنے والی صلاحیت ختم کردی جاتی ہیں لیکن ان میں اتنی صلاحیت موجود رہتی ہے کہ وہ خون سے اپنے خلاف ضد اجسام پیدا کروالیں۔ یہ ضد اجسام خون سے مختلف طریقوں سے حاصل کرکے شیشوں میں بند کردئیے جاتے ہیں جنہیں عرف عام میں انجکشن، ٹیکہ یا” اینٹی بائیوٹک” کہا جاتا ہے۔ اور میں وائرس قبیلے کا سردار کورونا یہ بھی دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ کورونا سے مرنے والوں کی جتنی تعداد بتائی جاتی ہے وہ جھوٹ ہے۔ آج ہر مرنے والے کو کورونا کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے اور وائرس فری دنیا بنانے کے لیے زبردستی مارکیٹ بنائی جارہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عزیزانِ من۔ وائرس قبیلے کے سردار نے جو کچھ کہا اب مزید اس کچھ نہیں کہا جاسکتا بس یہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ دعا کریں کہ اللّٰہ ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply