بےحس۔۔اُسامہ ریاض

وہ اپنا بھاری بھرکم وجود لیے مجھ سے چند قدم دور بانس کی ایک لمبی لکڑی لیے کچھ پریشان سا کھڑا تھا۔ دوسرے ہاتھ میں بیشمار کاعذ جن پر ترچھی لکیریں تھیں۔ تیزی سے آنکھوں کی پتلیوں کو دائیں اور بائیں جانب حرکت دیتے ہوئے وہ ایک نظر مجھ پر ڈالتا اور ایک نظر اُن بےترتیب کاعذوں پر۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ چکے تھے، جیسے کئی دنوں سے سویا نہ ہو۔ خاکی رنگ کا ایک بڑا سا چولہ پہنے ہوئے تھا جس پر جابجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ اُس کے سر و پیشانی سے ٹھنڈا پسینہ بہہ بہہ کر تپتی زمین پر گر رہا تھا۔ مری جانب اُٹھتا ہوا اُس کا ہر قدم مجھ پر لرز طاری کر رہا تھا۔ ویسے تو میں ایک بےباک اور جری صحافی تھا۔ میں نے زندگی میں بدترین حالات میں بھی گھبرا نا نہیں سیکھا تھا مگر نجانے کیوں مجھے اُس کے عجیب حلیے سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ میری تمام جرأت و ہمت مفقود ہو رہی تھی اور حالت اُس کبوتر جیسی تھی جو باز کے پنجے  میں پہنچ کر بازو پھٹ پھٹانے کی قوت کھو بیٹھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ اب مرے نزدیک آ چکا تھا۔ اتنا کہ میں اُس کی سانسوں کی آواز تک سن پا رہا تھا۔ اُس کی لمبی داڑھی، بےترتیب موچھوں سے مجھے عجیب الجھن ہو رہی تھی مگر اُس کے سحرانگیز رعب کے اثر میں کچھ کہنے کی ہمت کھو بیٹھا تھا۔ اُن بےترتیب کاغذوں میں سے ایک کاغذ نکال کر اُس نے مری طرف بڑھایا۔ کاعذ پر سرخ رنگ سے کھینچی گئی لکیروں پر بہت دیر تک غور کرتا رہا۔ یادداشت کے دھندلے آئینہ میں وہ تاریخیں ماضی میں کھینچتی لے جا رہی تھیں۔ ماضی میں بیشمار دلخراش منظروں کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور خود  قلمبند کیا تھا۔ میں نے ہجوموں کو معصوم لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹتے دیکھا تھا۔ میں نے عبادت خانے جلتے دیکھے تھے۔ میں نے بھوک سے بلکتے بچے دیکھے تھے۔ یہ تاریخیں انہیں واقعات کی طرف نشاندہی کر رہی تھیں۔ مجھے وہ سارا ہولناک ماضی یاد آ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ کسی خفیہ ایجنسی کا کارکن ہے وہ برسوں سے مرا پیچھا کر رہا ہے مگر وہ یہ ماضی کے واقعات کو لیے مرے پاس کیوں آیا ہے۔ مرے سوال پر وہ چونک اُٹھا۔ پیشمان چہرہ لیے وہ مجھ سے بےحس ہونے کا گر سیکھنا چاہتا تھا۔ وہ برسوں معصوم کی روحیں قبض کرتے تھک گیا تھا۔

Facebook Comments