دین، سائنس اور ہم۔چند گزارشات۔۔۔عماد عاشق

ایک دوست نے ایک ویڈیواپنی فیس بکی دیوار پر لگائی جس میں دعوتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک عالمِ دین بچوں سے گفتگو کرر ہے ہیں۔ دورانِ گفتگو بچوں نے یہ کہا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اسی وجہ سے موسموں کا رد ّو بدل ہوتا ہے۔ اس پر عالمِ دین نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے۔قرآن و حدیث کی رو سے زمین ساکن ہے اور اس بات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان نے اپنے ایک رسالے میں ثابت بھی کیا ہے۔مزید یہ بھی فرمایا کہ ہم نے سائنس کی بات نہیں ماننی، دین کی ماننی ہے۔

اس ویڈیو نے دوست کو کافی کبیدہ خاطر کیا اور انہوں نے سخت الفاظ میں عالمِ دین کے رویہ پر تنقید کی۔اس حوالے سے چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔واضح رہے کہ میرا مدعا یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ زمین ساکن ہے یا حرکت کر رہی ہے، کیونکہ میں اس شعبہ کا ماہر نہیں۔ یہ جن کا کام ہے انہی کو ساجھے۔ میری گزارشات اس سے سوا ہیں۔

پہلی گزارش ہمارے ان دوستوں کی خدمت میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اب مولویوں کا کیا کام کہ وہ سائنس، مظاہرِ فطرت اور ان کے مندرجات وغیرہ پر بات کریں۔ کیا اب ہمیں اعلیٰ حضرت بتائیں گے کہ زمین ساکن ہے یا حرکت میں ہے؟اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ آپ کا یہ مؤقف آج کے تعلیمی نظام اور معاشرے کی ترتیب کی وجہ سے ہے۔ انگریز کی برِصغیر میں آمد ہوئی تو ساتھ ہی ایک ایسا نظامِ تعلیم رائج کیا گیا جس کا مقصد ہندوستان میں کلرک پیدا کرنا تھا، اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مسٹر اور مُلا کی تقسیم پیدا ہوئی، اور مذہبی تعلیم اور جدید علوم کی تخصیص قائم کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں ایک ہی نظامِ تعلیم ہونے کی وجہ سے دینی و دنیاوی علوم کی کوئی تخصیص تھی ہی نہیں۔ ایک ہی چھت تلے تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ یہ بات شاید آج بہت لوگوں کو حیرت زدہ کر ے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں میں رائج نظامِ تعلیم میں فلکیات، ریاضی، طبیعات، کیمیا اور دیگر علوم بھی بنِا تامل پڑھائے جاتے تھے۔ اس لیے اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ چونکہ مولوی صرف نمازِ عید اور نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے ہیں، اس لیے ان سے سائنس کی بات نہیں ہو سکتی، تو یہ آپ کی شدید غلط فہمی ہے۔ جس رسالے کا ذکر مذکورہ عالمِ دین نے ویڈیو میں کیا، اس کا عنوان ”فوزِ مبین در ردِ حرکتِ زمین” ہے۔ جو لوگ آج اس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ مولوی سائنس کے مسئلے میں بولتے ہیں، مجھے غالب گمان ہے کہ انہوں نے یہ رسالہ دیکھا تک نہیں۔ ایک مرتبہ اسے پڑھنا شروع کیا تھا مگر دقیق سائنسی اصطلاحات کیوجہ سے زیادہ مطالعہ نہیں کر سکا (مذکورہ رسالہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ جو دوست پڑھنا چاہیں، پڑھ لیں)۔ گو کہ یہ رسالہ بھی آج کی زبان میں کہیں تو ‘سائنسی’ علم کی بناء پر ہی لکھا گیا ہے۔ پھر عرض کروں کہ یہاں میرا مقصد مولویوں کے مؤقف سے اتفاق یا اختلاف نہیں ہے، صرف یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ اس معاملے کو آج کے تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس دور کے تناظر میں بھی دیکھا جائے جب مسلمانوں کا وہ پتلا حال نہ تھا جو آج ہے۔

اب دوسری بات مولویوں اور ان کے ہم خیال لوگوں سے۔ بھائیو، جب یہ جدید علوم ہماری توجہ کا مرکز تھے تو ہم ابن الہیشم، البیرونی، ابنِ حیان اور بوعلی سینا جیسے لوگ پیدا کرتے تھے۔جب ہمیں نقصان پہنچانے کی غرض سے اپنوں پرایوں نے ہم سے یہ جدید علوم چھینے تو آپ آج کیوں انہیں کفریہ علوم گرداننے پر تُلے ہوئے ہیں؟ کیوں آپ آج بلاوجہ سائنس کواسلام کے متصادم کوئی شے ثابت کرنے پر مصر ہیں؟کیوں آپ نے ریاضی، طبیعات اور کیمیا کو قرآن و حدیث اور فقہ کے علم کے مقابل لا کھڑا کیا ہے؟ غیروں نے ہمارے مدارس سے یہ سب علوم نکالے۔ آج ہم یہی آپ کو واپس دینا چاہیں تو آپ اسے کیوں دین پر حملہ سمجھتے ہیں؟آپ کیوں بچوں پر یہ بات تھوپنے پر مصر ہیں کہ زمین ساکن ہے اور اس کے برخلاف سوچنا بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہے؟ کیا یہ دین و ایمان کا مسئلہ ہے؟ کیا یہ ضروریات ِ دین میں سے ہے کہ زمین کو ساکن مانا جائے؟ اگرایسا نہیں ہے تو آپ کیوں بچوں کے اذہان کی تربیت علم دوستی کی نہج پر نہیں کر رہے؟ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہم سائنس کی نہیں، دین کی مانیں گے؟ یہ تخصیص تو پیدا ہی اغیار نے کی ہے۔ آپ کیوں اس خلیج کو مزید گہرا کر رہے ہیں؟بچوں کو علم دوستی سکھائیں۔ انہیں یہ ترغیب دیں کہ وہ سیلف لرنر بنیں۔چیزوں کا تجزیہ کرنا سیکھیں۔ ہمیں ہمارے دین نے صرف ضروریات ِ دین اور حلال و حرام کے بارے میں سرِ تسلیم خم کرنے کا کہا ہے۔ دیگر معاملات میں تو کھوجنے اور جاننے کی ترغیب ہے۔خود قرآن کا ارشاد ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ تاریخِ اسلامی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں علوم کے سیکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ آخر بدر کے قیدی مسلمان بچوں کو فقہ کی تعلیم دے کر تو آزاد نہ ہوئے تھے۔ آپ بچوں کو یہ ترغیب دیں کہ ان معاملات میں وہ دونوں طرف کی رائے کو پرکھیں۔ پھر جس فریق کے دلائل بہتر لگیں، اس کی بات مان لیں۔ یہی تو وہ علم کا، تحقیق کا سفر ہے جسے طے کر کے قومیں عروج پاتی ہیں۔ گو کہ مسلمانوں کے علمی زوال کی بڑی وجوہات مسلمانوں کا سیاسی و معاشی زوال ہیں، مگر کسر آپ لوگوں نے بھی کوئی نہیں چھوڑی۔ مسلمان بادشاہوں کی خواہشات کے خوف سے اجتہاد کا دروازہ کیا بند ہوا، آپ نے تو ہر جدید شے پر کفر اور گمراہی کی مہریں لگا دیں۔ آپ کے اس رویہ سے ہمیں سراسر نقصان ہوا ہے۔ خدارا، رحم فرمائیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر میں مجھ سے کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply