بدصورت۔۔عاطف ندیم

عورت کبھی  بد صورت نہیں ہوتی، واہ! کیا بات کہی منٹو نے۔آپی!سنا آپ نے؟عورت کبھی بدصورت نہیں ہوتی”۔
” عورت ہی بدصورت ہوتی ہے۔سب افسانوی باتیں ہیں یہ۔سنا تم نے “۔ اس نے تلخ لہجے میں چھوٹی بہن کوجواب دیا، کیونکہ اس کے سامنے آ ئینے میں ایک بدصورت عورت ہی کھڑی تھی۔

” ہاں افسانوی ہی سہی،مگر ان کا مقصد اصلاح بھی تو ہو سکتا ہے نا”۔

“کیسی اصلاح؟ جب پڑھنے والے ہی اندھے ہوں، سننے والے بہرے ہوں، تو کیسی اصلاح؟”۔

“مگر آپی! منٹو کی انہی افسانوی باتوں کے کروڑوں لوگ معترف ہیں “۔

“معترف اچھا! اسی لیے الٹی شلوار پہننے والوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں “۔

“الٹی شلوار!؟یہ کیا بات ہوئی آپی! میں کچھ سمجھی نہیں؟”۔

“مطلب یہ کہ،کروڑوں لوگ منٹو کو پڑھتے ہیں، سنتے ہیں،اور داد بھی دیتے ہیں، مگرکیااپنی اصلاح بھی کرتے ہیں؟۔”

” میں تو بس یہی جانتی ہوں کہ منٹو نے بالکل ٹھیک کہا کہ، عورت کبھی بدصورت نہیں ہوتی”۔

“پھر وہی بکواس!ادھر دیکھو میری طرف”۔وہ غصے  سے چھوٹی بہن کی طرف بڑھی، جو بیڈ پر بیٹھی ،ہاتھ میں منٹو کی کتاب لیے،بولے جا رہی تھی،اس نے چھوٹی بہن کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کر دیا۔چھوٹی بہن آپی کے اس انداز پر گھبرا گئی ۔

” یہ دیکھو! تمہارے سامنے کھڑی ہے ایک بدصورت عورت۔ جو اتنی بدصورت ہے کہ چھوٹی بہن کی شادی کو  بھی تین سال ہو چکے،اور کوئی بڑی کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا  “۔

” آئی ایم سوری آپی! میرا یہ مطلب ہر گز بھی نہیں تھا،میں تو صرف آپ کا موڈ اچھا کرنا چاہتی تھی، میں جانتی ہوں جب بھی آپ کو دیکھنے لوگ آتے ہیں تو آپ کا موڈ آف ہوجاتا ہے، “۔ آپی کے یک دم بدلنے والے لہجہ سے وہ سہم گئی تھی ۔

“خدارا امی کو بولو، یہ تماشا ختم کر دیں، میں مزید ذلت نہیں سہہ سکتی اب۔ آخر تم سب کیوں نہیں مان لیتے، بدصورت چہروں کے مقدر میں سہاگ نہیں ہوتا”۔

“مت کریں ایسی باتیں آپی،سب ٹھیک ہو جائے گا”۔

“جانتی ہوں میں کہ تم آج کیوں آئی ہو، تمھیں امی نے بلایا ہے نا؟ کیونکہ آج پھر تمہاری آپی کی منڈی لگنی ہے،آج ہی نہیں یہ تو پچھلے دس بارہ سال سے تماشا ہو رہا ہے، مجھ سے تو منڈی کا جانور ہی اچھا ہے،کہ اس کی ہر روز سرکس تو نہیں لگتی۔ان تماشائیوں سے کیاگِلہ کروں،میرے تو اپنے گھر والوں کو ترس نہیں آتا مجھ پر”۔اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں ۔

“پلیز آپی! یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو،کیوں رو ئے جا رہی ہیں؟”۔

” چھوٹی! تمہاری آپی بہت تھک چکی ہے،اب مجھے بھی اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی ہے۔” اس کی آواز بوجھل ہونے لگی تھی، چھوٹی بہن نے اسے گلے لگا لیا،بدصورت معاشرے کی میل دونوں بہنوں کی آنکھوں سے بہنے لگی۔چھوٹی بہن نے آپی کو  ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھا دیا، ٹیبل سے گلاس اٹھایا اور آپی کے منہ سے لگا نا چاہا مگر جب انکھیں برس رہی ہوں تو پانی حلق سے نہیں اُترا کرتا۔۔

” چھوٹی!مجھے تو ان لوگوں سے بھی ذلت ہی ملی جو تین تین بچوں کے باپ کے رشتے کے  لیے مجھے دیکھنے آتے رہے۔آخر یہ کھیل کب ختم ہو گا؟، کیوں میرے گھر والوں کو ترس نہیں آتا مجھ پر”۔

آج وہ پہلی بار چھوٹی بہن کے سامنے،خود کو سنبھال نہ سکی اور پھٹ پڑی،دونوں بہنوں نے کبھی ایک دوسرے سے اس موضوع پر بات تک نہ کی تھی۔ تین سال پہلے آپی کو دیکھنے آئے لوگ چھوٹی کو بیاہ لے گے، تو چھوٹی بہن کی آپی سے آنکھیں ملانے کی ہمت ختم ہو چکی تھی ۔آ ج پھر آپی کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے تھے، چھوٹی بھی جان چکی تھی کہ اب اس کی آپی،اس تماشے سے تنگ آچکی ہے، اسی لیے منٹو کی کتاب میں جیسے ہی اس لائن پر نظر پڑی توآپی کو سنا ڈالی،مگر آپی کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی، اور دوسرا آج پھر اسے دیکھنے کچھ لوگ آرہے تھے،اسی لیے صبح سے اس کا موڈ بہت خراب تھا،رشتہ کے لیے آنے والوں کے سوالات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جا رہے تھی،پچھلی بار تو ایک عورت نے حد ہی کر دی،اس کی فرمائش تھی کہ” ہم سے باتیں کرو،پتا تو چلے  کہ تم ہکلاتی تو نہیں ہو، تم بالوں کو کلر تو نہیں کرتی نا؟۔۔ تمہاری چھوٹی بہن کی شادی کب ہوئی؟ابھی تک تمہارا رشتہ کیوں نہ ہوا؟،پہلے کبھی منگنی تو نہیں ہوئی تمہاری؟”گویا منگنی نہ ہوئی، ملیریا  ہوگیا کہ  پہلے تو نہیں ہوا کبھی؟۔۔۔۔

یہ سوالات تو نہیں ہوتے تھے، یہ تو وہ تِیر ہوتے تھے، جو اس کی روح تک کو زخمی کیے دیتے، اس سے پہلے کہ  اس کے زخموں سے خون رسنا بند ہوتا،دروازہ پر پھر دستک ہونے لگتی،اور اس کی ماں ننگے پاؤں دوڑ ی دروازہ کھولتی،اور ابا کو مہمانوں کے بیٹھنے سے پہلے ہی لوازمات کی فکر ہونے لگتی۔ کسی ریموٹ کی طرح ، وہ امی ابا کی خاطر خود کو ہر بار نیلامی کے لیے پیش کیے جاتی۔اسے لگا ایک دن خود اس کے  گھر والوں کو احساس ہو جائے گا،مگر اس پر کسی کو ترس نہ آیا،اور گھر والوں کی بے حسی سے اس کے اندرکا دہکتا لاوا آج پھٹ پڑا۔

وہ بیڈ سے اُٹھی، پانی پیا، چھوٹی بہن ابھی بھی بھیگی آنکھوں کے ساتھ  اُسے دیکھے جا رہی تھی،آپی ہمیشہ کی طرح چند آنسو بہا کر چپ ہو چکی،مگر چھوٹی بہن کی  آنکھیں ابھی بھی رواں تھیں ۔چھوٹی کے لیے اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی،اور ہمیشہ کی طرح آنسوؤں  کو روک لیا۔

” چھوٹی! وہ لوگ پہنچنے ہی والے ہوں گے،تیاری میں مدد تو کر دو، میرا کوئی سوٹ ہی نکال دو”۔چھوٹی کا موڈ اچھا  کرنے کے لیے اس نے بات بدل لی، چھوٹی بہن نے بھیگی  آنکھوں کے ساتھ ہی اثبات میں سر ہلایا،
” کیا آپی! آپ کی الماری میں ایک بھی اچھا ڈریس نہیں ہے،دو چار مہنگے ڈریس ہی رکھ لیں ایسے موقع کے لیے”۔
” جب شکل ایک ٹکے کی بھی نہ ہو توقیمتی لباس کا کیا فائدہ۔قیمت تو صرف شکل کی ہوتی ہے نا “۔
” آپ کی شکل نہیں! لوگوں کی نظر ایک ٹکے کی ہے۔کیوں ایسی باتیں کیے جا رہی ہیں۔ پلیز آپی اپنا موڈ تو اچھا کریں اب”۔
“چھوٹی! امی کو بتا دینا،کہ اب یہ تماشا بند کردیں، میں اور ذلت نہیں برداشت کر سکتی”۔
” انشاء اللہ آ ئیندہ اس تماشے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، میرا دل کہتا ہے،آج آپ کا رشتہ ہو ہی جائے گا۔”
” اچھا!کیوں آج اندھے دیکھنے آرہے ہیں مجھے؟ یا راتوں رات میری چمڑی سفید ہو چکی؟۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” میں نے بولا تھا نا!بہت بہت مبارک ہو آپی،وہ لوگ دو دن بعد باقاعدہ منگنی کی رسم کرنا چاہتے ہیں “۔وہ نماز پڑھ رہی تھی،سلام پھیرتے ہی چھوٹی بولی
“مجھے نہیں!تم سب کو مبارک ہو! امی کو، بابا کو،اور تمھیں، تم سب کو مبارک ہو”۔جائے نماز کا سرا تہہ کر کے،ساتھ ہی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا دی اس نے،اور سر کے گرد لپٹے دوپٹے کی ایک تہہ کھول دی،
” کیا مطلب آپی! آپ خوش نہیں ہیں کیا؟”۔چھوٹی بھی آپی کے ساتھ کُشن پر بیٹھ گئی۔
“نہیں تو بہت خوش ہوں میں! کم از کم میرا تماشا  تو ختم ہو جائے گا نا،ان زہر یلی زبانوں،او رکاٹتی نگاہوں سے جان تو چھوٹ جائے گی میری”۔
“آپی،جانتی ہوں میں کہ امی نے عجلت دکھائی اور لڑکے سے ملے بغیر ہی سب کچھ طے کر دیا”۔
” چالیس سالہ شخص کو تم لڑکا کہہ رہی ہو،ویسے اسے دیکھنے ملنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، لڑکے تو سب ہی خوبصورت ہوتے ہیں نا۔جسموں کی نمائش تو صرف لڑکی کی ہوتی ہے”۔
“آپی! وہ دس سال بڑا ہے آپ سے، اور پھر دو بچے بھی۔۔اگر آپ رشتے سے مطمئن نہیں تو پھر یہ خاموشی کیوں؟ انکار کر دیں نا؟ “۔

“قبرستان بھی تو خاموش ہی ہوتے ہیں نا! میں نے بھی ایک قبرستان میں اپنا سب کچھ دفن کر دیا، اپنی خواہشات،اپنے ارمان، حسرتیں “۔تاثرات سے خالی چہرے کے ساتھ وہ بولے جارہی تھی،
“مگر آپی! کیوں کر رہی ہیں ایسا!کیا خوشیوں پر آپ کا کوئی حق نہیں!کیوں قبریں بنا رہی ہیں سینے میں؟ “۔
“یہ قبریں بنانا تو اس معاشرے کی ہر عورت پر واجب ہے۔ سینے میں قبریں بناتے جاؤ، چھاتی پر میڈل لگتے رہیں گے،معاشرے میں تمھاری واہ واہ ہوتی رہے گی۔بے وقوت عورت! ا یک واہ کی لالچ میں اپنا سب کچھ فنا کر دیتی ہے”۔

“ویسے آپی، مرد بھی تو بہت کچھ سہتا ہو گا نا، مگر مرد با ہمت ہے، عور ت کی طرح رونا پسند نہیں کرتا”۔

“کیا!مرد اور باہمت؟۔ مرد میں اتنی ہمت کہاں کہ سینے میں ایک بھی قبر کھود سکے۔اگر اتنا ہی باہمت ہوتا نا، تو یہ شخص میرے بجائے کسی بچوں والی ماں سے شادی کرتا”۔

” اچھا نا اب بس کریں آپی! منٹو نے آپ کا دماغ بھی خراب کر دیا ہے۔آپ کی منگنی ہونے جا رہی ہے نا، اب تو یہ فضول باتیں نہ کریں “۔
“فضول باتیں ہیں یہ؟ ہاں،انہی باتوں نے مجھے دس سال سونے نہیں دیا”۔
” اچھا نا! ا ب شادی کے بعد جی بھر کے سوئیے گا۔ ٹھیک “۔چھوٹی نے شرارتاً کہا
” میں مذاق کے موڈ میں بالکل بھی نہیں ہوں، اچھا”۔
” آپی،سنا ہے آپ کے ہونے والے بہت ہنڈ سم ہیں “۔
” اس میں کون سی بڑی بات ہے!مر دتو سارے ہی ہنڈسم ہوتے ہیں! شکل توبس عورت کی خراب ہوتی ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی مرد کی رفاقت کا صرف احساس ہی اتنا خوشگوار ہو سکتا ہے، اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا، سوچتی بھی کیسے، اب وہ کسی سے منسوب ہونے جا رہی ہے،صبح ایک شخص اپنے نام کی انگوٹھی پہنانے آرہا ہے،  سبز اور زرد منگنی کا جوڑا اس کے سامنے صوفے پر پڑا ہے،اس کی نظریں بار بار اس جوڑے کی چمک میں کھوئے جا رہی ہیں،چھوٹی نے ہتھیلیوں کے بیچ مہندی سے دو چاند بنا ڈالے،انگلیوں کے سِروں پر مہندی کے تاج رکھ دیے،اب وہ دونوں سیاہ چاند ایک دوشیزہ کی سانولی ہتھیلیوں پر چمک رہے ہیں اور مہندی کی مہک سے اس کا چہرہ کھلاجا رہا ہے،ایک نئی زندگی اسے آواز دے رہی ہے۔” اپنا گھر، شوہر اور آنگن میں کھیلتے وہ دو بچے! ایک عورت کو اور کیا چاہیے”۔مہندی سے مہکتی ہتھیلی پر سر رکھے لیٹی ہوئی تھی وہ، نظریں ابھی بھی منگنی کے جوڑے پر ٹکی ہوئی،لبوں پر تبسم۔اپنائے جانے کے احساس نے اسے افق کے رنگوں میں نہلا دیا۔

اچانک ایک چیخ نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔وہ ڈر کر ایک دم اٹھ بیٹھی،بے اختیار سینے پر ہاتھ رکھا۔یہ چیخ تو یہاں سے ہی بلند ہو رہی تھی۔ہاں!یہ چیخ تو اس کے اپنے سینے کی ایک قبر کی تھی۔جو مسلسل شور مچائے جا رہی تھی۔۔ غلط کہا تھا اس نے چھوٹی سے کہ اس کے سینے میں خاموش قبرستان ہے، بالکل جھوٹ تھا یہ، کیونکہ عورت کے سینے میں قبریں خاموش نہیں رہتیں، ان قبروں میں دفن خواہشات، حسرتیں،چاہتیں سب چیختی رہتی ہیں۔ یہ چیختی قبر میں  آج ہی اس نے کھودی تھی، جس میں وہ ایک حقیقت دفن کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ اس کی خوشیوں کے لیے اس حقیقت کا دفن ہونا ضروری تھا۔
“بس اب اور نہیں، اب میں مزید اپنی خوشیوں کو قربان نہیں کر سکتی،اس حقیقت کو ہر حال میں دفن ہونا ہو گا “۔مگر اس قبر کی چیخیں اتنی بلند ہو چکیں  کہ اس کی سانس رکنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“ابھی؟اس وقت؟ نہیں آپی میں یہ نہیں کر سکتی۔”
“کہا نا میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے۔”منگنی کا جوڑا زیب تن کیے وہ چھوٹی بہن کو اسرار کر رہی تھی کہ اس شخص سے ملنا چاہتی ہے،
“مگر آپی! سب مہمان آچکے، کچھ ہی دیر میں انگوٹھی کی رسم ہو رہی ہے۔”
“تب تک بہت دیر ہو جائے گی۔”
” کیسی دیر آپی؟ اورکیا کرنے جا رہی ہیں؟ کہا نا رسم ہو جائے تو آپ کی بات کرواتی ہیں ان سے۔”
“میری پوری زندگی کا سوال ہے چھوٹی، میرا ملنا بہت ضروری ہے۔ ”
“مگر کل تک تو آپ کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا! پھر آج کیوں ملنا ہے آپ کو؟۔”
“چھو ٹی چھوٹی! میرے سینے میں ایک قبر ہے،ایک حقیقت دفن ہے اس میں۔ پلیز ان کو بلا لو۔”
” اوہو آپی!پھر وہی افسانوی باتیں،کیا بچپنا ہے یہ! ان کتابوں نے تو آپ کا دماغ ہی خراب کر دیا ہے،مجھے تو ڈرا ہی دیا تھا آپ نے۔”
“اچھا چلیں آجائیں باہر۔”
“کہاں ”
“اُس قبرستان پر بلڈوزر پھیرنے اور کہاں!۔بھئی امی کی آواز نہیں سنائی دی آپ کو؟ منگنی کی انگوٹھی پہننی ہے کہ نہیں؟۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں واپس آچکی،انگوٹھی کی رسم کے دوران اس کا سر جھکا ہی رہا،چاہتے ہوئے بھی وہ سر اٹھا کر اس شخص کا چہرہ نہ دیکھ سکی۔ کسی نے خود اس کا ہاتھ تھام کر انگوٹھی پہنائی، اس شخص کے ہاتھ کے لمس سے اس کا جسم موم ہوا جا رہا تھا۔وہ لمس اسے ایک ایسی دنیا میں لے گیا، جہاں سانس سانس بہاریں پھوٹ رہی تھیں ۔بیڈ پر بیٹھے وہ خیالوں میں گم تھی کہ، ایک آہٹ اسے خوابوں کی دنیا سے واپس لے آئی،وہ شخص اپنے دونوں بچوں کے ساتھ چوکھٹ پار  کر چکا تھا،وہ ایک دم کھڑی ہو ئی ۔ سامنے کھڑا شخص واقعی بہت خوبصورت تھا،اس کی آنکھوں میں جگنو اتر آئے” یہ یہاں کیسے” وہ آتے ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ بچے بھی باپ کے ساتھ صوفے پر بیٹھ چکے تھے ۔وہ بھول چکی تھی کہ اس شخص سے ملنا اسی کی  خواہش تھی۔

” اسے میں آپ کی بہن کی شرارت سمجھوں یا آپ کی خواہش؟کیوں ملنا چاہتی تھیں  آپ مجھ سے؟۔چلیں جو بھی ہے، میں بھی بچوں کو آپ سے ملانا چاہتا تھا، بڑا بیٹا اصرار کر رہا تھا”۔
وہ اب تک خاموشی سے ان تینوں کو  دیکھے جا رہی تھی ، اسے لگا یہ تینوں ہمیشہ سے اس کے تھے، اس شخص کی مہک سے اس کے بیتے ماہ سال کا تعفن لمحوں میں دفن ہو چکا، وہ بھول چکی تھی کہ ایک حقیقت ایک سوال کی خاطر،وہ خود ہی اس شخص سے ملنا چاہتی تھی، مگر اب “یہ سب میں کسی قیمت  پر نہیں کھونا چاہتی،اس حقیقت کو دفن ہو ناپڑے گا، میں اس شخص کو نہیں کھونا چاہتی”۔
” چلیں اچھا ہوا!چھوٹی کی شرارت نے بچوں کو نئی ماں سے ملا دیا۔”
“بہت پیارے بچے ہیں۔” اس سے زیادہ وہ کچھ نہ بول پائی
” اچھا ہم چلتے ہیں، اللہ حافظ!۔” اس شخص کے ساتھ ہی بچے بھی کھڑے ہو گئے ، کاش یہ لمحات تھم جائیں،کاش میں اس شخص کے قدم روک سکتی۔بے اختیار وہ بھی دو قدم آگے بڑھی۔اس کی نظر کمرے کے دروازے کے ساتھ دیوار پر لگے شیشے سے ٹکرائی، اس شیشے میں اس نے بھیانک منظر دیکھا،اس کی دھڑکنیں کانپنے لگیں ،سانس اکھڑنے لگی، شیشے میں ایک بد صورت چہرہ اسے دیکھ رہا تھا،یہی چہرہ اس کی خوشیوں کا قاتل تھا،اس نے نظریں پھیر لیں ،اس کی نظریں دیوار پر لگے شیشے کے ساتھ ہی بک شیلف پر جا پڑیں ،جہاں بک شیلف سے ایک کتاب کے کور سے منٹو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا،بک شیلف سے آواز آئی؛
” نظریں کیوں پھیر لیں!دیکھ اپنی حقیقت آئینے میں۔کیوں بھول گئی کہ تو بدصورت ہے، پوچھ اس شخص سے کہ کیوں اپنایا ہے اس نے تمھیں!روک اسے، اور پوچھ اس تعلق کی حقیقت۔کیاکہاتھا تو نے! کہ الٹی شلوار والوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں! تو غور سے دیکھ، کہیں تمھارے جھومنے کی وجہ بھی یہی الٹی شلوار تو نہیں؟،جس نمائش کا تو رونا روتی تھی نا، آج اسی نمائش میں کیا قیمت لگی ہے تیری؟وہ جا رہا ہے،روک اسے۔”
“سنیں۔”
” جی”
وہ چوکھٹ پار کر چکا تھا، جب اس نے پیچھے سے آواز دی،
“چھوٹی نے نہیں! آپ کو میں نے بلایا تھا، ”
” ہا ں تو بولو”
” میں کچھ پوچھنا چاہتی تھی “۔
“ہاں پوچھو”۔
“کیوں کر رہے ہیں آپ مجھ سے شادی!؟۔”
” مجھے، ماں چاہیے اپنے بچو ں کے لیے “۔

Advertisements
julia rana solicitors

بک شیلف سے پھر آواز آئی،” سن لیا ؟۔اس شخص کو ساتھی کی نہیں،بلکہ اپنے بچوں کے لیے ماں چاہیے۔ ہاں! تجھ میں کوئی دلچسپی نہیں اسے۔یاد کر، تو نے منڈی کے جانور کی مثال دی تھی نا؟ آخروہی کچھ تو ہوا تیرے ساتھ! اور تیری رضاسے ہوا، اس شخص کو اپنے بار کے لیے صرف ایک مددگار چاہیے۔
“ہاں! بدصورت ہوں میں، کوئی مرد نہیں اپنا سکتامجھے، مگر ماں باپ کے لیے مجھے یہ قربانی دینی ہو گی،مجھے دو بچوں کے باپ، جو مجھ سے دس سال بڑا ہے، اس کے ساتھ جانا ہو گا”۔
بک شیلف سے پھر آواز آئی؛
اچھا! بہت شوق ہے نا تجھے! جاسجا لے ایک اور میڈل اپنے سینے پر،صدیوں سے یہی تو کرتی آئی ہے تو، مگر غور کر، یہ میڈلز نہیں ہیں!یہ قربانی بھی نہیں ہے! یہ توسنہری بیڑیاں ہیں۔
مگر آنکھیں کھول اب،تہہِ خاک کر ان میڈلز کو!توڑ ڈال میراث عمرانی کی سنہری بیڑیاں، چاک کر دے اپنا سینہ اور آزاد کردے ان قبروں کو۔اوربے باک سانس لے۔زمین ہی کیا فلک بھی تیرا ہے۔
وگرنہ!کھڑی ہو جا شیشے کے سامنے، غور سے دیکھ،اور اقرار کر!کہ شلوار تیری بھی الٹی ہے۔

Facebook Comments