میری والدہ۔۔داؤد ظفر ندیم

آج والدہ کی رحلت کو پورے دس دن ہوگئے ہیں یہ میری زندگی کی پہلی عید تھی جو میں  نے والدہ کے بغیر گزاری تھی ،مجھے والدہ کی زندگی میں اس بات کا خاطر خواہ اندازہ نہیں تھا کہ والدہ کے بغیر زندگی کا کیا مطلب ہوتا ہے ،ایک ایسے شخص کے لئے جس نے زندگی کا بیشتر عرصہ اپنی والدہ کے ساتھ گزارا تھا۔ ایک بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے میں ہمیشہ اپنی والدہ کے لئے عزیز ترین ہستی رہا تھا اور بچپن میں مجھے دمے کا مرض ہوگیا تھا میری سانسیں پھول جایا کرتی تھیں اور والدہ مجھے کبھی ڈاکٹروں کے پاس اور کبھی ہسپتالوں میں لئے پھرتی تھیں۔ یہ سخت ترین دن تھے کئی سال میں دمے کے بدترین حملوں سے گزرا تھا یہ ایک پیچیدہ مرض تھا اور مجھے کئی دفعہ ہسپتالوں میں آکسیجن لگوانا پڑی تھی ،امی میرے ساتھ رہتی تھیں اور کئی دفعہ ڈاکٹر میری حالت سے ناامید ہوتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ میرے قریبی عزیز میرے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے تھے، مگر میری امی نے کبھی ہمت نہیں ہاری تھی، وہ مجھے کئی دفعہ موت کے پنجوں سے نکال کر لائی تھیں اور اس لئے ان کو مجھ سے بہت شدت سے محبت تھی ۔

اب گزشتہ دس سالوں سے میں زندگی کے ایک بڑے بحران کا شکار تھا، کاروبار میں نقصان اور کچھ لوگوں کے فراڈ نے مجھے سخت نقصان پہنچایا تھا، ایسے میں مَیں بہت خالی محسوس کر رہا تھا اور کبھی کسی سے اپنی پریشانی  بارے بات نہیں کر پایا تھا، مگر دنیا میں میری امی ہی واحد ہستی تھیں جن کو میری پریشانی کا اندازہ تھا اور وہ ہمیشہ میری ہمت بندھاتی رہتی تھیں۔

میری والدہ کو اپنے سسرال اور میکے دونوں سے یکساں محبت تھی ،اپنے میکے کے لئے وہ بڑی بہن تھیں ،تو اپنے سسرال میں وہ بڑی بھابھی، دونوں جگہ چھوٹا بڑا ہر شخص ان کی بہت عزت کرتا تھا اور وہ بھی ہر شخص سے بہت محبت سے پیش آتی تھیں۔ نہ صرف میرے تمام چچا اور پھوپھو اور ان کے بچے، بلکہ میرے والد کے تمام کزن بہن بھائیوں کے ساتھ بھی وہ بہت محبت بھرا رشتہ رکھتی تھیں۔

میں نے اپنی والدہ کو تہجد کبھی قضا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، نماز اور قرآن سے بے انتہا محبت، اور نعت شریف سے بے انتہا لگاؤ۔ بچپن میں انھوں نے مجھے بہت سی پنجابی اکھان، لوریاں اور کہانیاں سنائی تھیں۔ ان کے سنانے کا انداز بڑا دلچسپ ہوتا تھا اور اس کے ساتھ کبھی کبھی نعتیں بھی سنایا کرتیں۔

میں نے امی جان کے ہمیشہ دو ہی معمولات دیکھے ہیں ایک عبادت گزاری اور دوسرا خلق خدا کی خدمت گزاری۔ ان کو ہمیشہ علم ہوتا تھا کہ خاندان میں کس شخص کو کیا پریشانی ہے اور ان کو مالی امداد کی ضرورت ہے ۔جاننے والی کس عورت کو، محلے کی کس عورت کو اس وقت ضرورت ہے اور وہ اس کی ضرورت کو پورا کرنے کی  ہر ممکن  حد تک کوشش کرتی تھیں ،ان کے تمام بہن بھائی، بھانجے بھتیجے ان کا کہنا مانتے تھے اور وہ اپنے پس انداز کیے ہوئے پیسوں کے علاوہ کسی کی ضرورت کے لئے اپنے تمام بھتیجوں بھانجوں، بہن بھائیوں کو بھی اپنے مشن میں شامل کر لیا کرتی تھیں اور وہ خوشی سے شامل ہو جایا کرتے تھے۔

ان کو دوسروں کے لئے دعا کرنے کا بہت شوق تھا ،ہم دونوں بھائیوں کے دوست اور خاندان کے افراد اور بہت سے دوسرے جاننے والے لوگ ان کی دعا کی تاثیر پر یقین رکھتے تھے اور اپنی حاجت روائی کے لئے ان سے دعا کروایا کرتے تھے۔

ان کے لئے رمضان بہت ہی مقدس و محترم مہینہ تھا اور وہ اپنے معیار کے مطابق ایک کامیاب زندگی گزار چکی تھیں ،ان کی خواہش تھی کہ ان کی نماز کبھی قضا نہ ہو اور اس دن بھی انھوں نے حسب معمول تہجد کی نماز ادا کی، اس کے بعد فجر کی نماز پڑھی ، اس کے بعد ان کو بے چینی محسوس ہونے لگی ان کا بلڈ پریشر زیادہ ہو گیا تھا، زندگی میں وہ زیادہ تر لو بلڈ پریشر کا شکار رہی تھیں اس لئے بلڈ پریشر میں معمولی اضافہ بھی ان کے لئے پریشان کن رہتا تھا مگر اس وقت ان کا بلڈ پریشر دو سو سے اوپر تھا، جو کہ ایک غیر معمولی بات تھی ۔ہم دونوں بھائی، اور میری بیوی ان کو ہسپتال لے کر گئے آکسیجن لگائی علاج شروع ہوا۔۔

وہ گزشتہ دس سال سے کینسر میں متبلا تھیں اور ان کو چوتھے درجے کا کینسر تھا، جس میں آپریٹ نہیں ہو سکتا تھا، مگر انھوں نے یہ دس سال بہت بہادری سے گزارے تھے ،انھوں نے شاید ہی کبھی درد کی غیرمعمولی شکایت کی ہو، بہت سکون اور برداشت سے بیماری کا مقابلہ کیا تھا، ان دس سالوں میں ان کو پہلی دفعہ ہسپتال میں لانے کی ضرورت پڑی تھی اور وہ بھی کینسر کے زخم کی درد نہیں تھی بلکہ ان کا بڑھتا ہوا بلڈ پریشر تھا۔

میں، بھائی اور میری بیوی ان کے ہمراہ تھے، میری بیوی لگاتار درود شریف پڑھ رہی تھی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کے اعضاء جواب دے رہے ہیں ان کو بڑے ہسپتال لے جائیں، ہم ان کو شہر کے بڑے نجی ہسپتال لے کر آئے ،جہاں وینٹی لیٹر کی سہولت موجود تھی وہاں ڈاکٹروں نے انھیں فوری آکسیجن لگائی تھی ،اور ابھی آپس میں بات کر رہے تھے کہ ڈاکٹر نے ان کا  معائنہ  کیا اور بھائی کو بتایا کہ وہ اس جہانِ  فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔ بھائی نے دیکھا تو ان کی حالت میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں آئی تھی ،وہ پوچھنے لگا کہ یہ کیسے ممکن ہے مگر وہ جو بات ہمارے لئے ناممکن تھی وہ وقوع پذیر ہو چکی تھی۔

وہ چاہتی تھیں کہ وہ ایک آسان اور پُر سکون موت سے ہم کنار ہوں، وہ اس جہان فانی سے اس دارالبقا کی طرف اس حالت میں منتقل ہوں کہ وہ اپنے روزمرہ کاموں کے لئے کسی دوسرے کی محتاج نہ ہوں۔ پھر رمضان المبارک میں دوسرے جہاں میں منتقلی کا ان کے نزدیک ایک خاص مفہوم تھا ،ستائیسویں شب ان کے لئے ایک خاص معنی رکھتی تھی، جو انھوں نے رمضان کی باقی طاق راتوں کی طرح ہمیشہ شب گزاری اور عبادت کے لئے بسر کی تھیں، وہ چھبیس رمضان کو ہم سے الوداع ہوگئیں، اور ستائیسویں کی شب پہلی شب تھی، جب وہ اس عالم دوام میں منتقل ہوئی ہوں گی ۔یہ شب جو نزول ملائکہ کی شب ہے ،جب روح الامین نازل کیے جاتے ہیں، اور جو سراسر سلامتی ہے، اہل ایمان کے لئے۔ جو ہزار راتوں سے افضل ہے اس رات میری پیاری امی اپنے رب کی بارگاہ میں پہلی حاضری کے لئے پیش ہوئی ہوں گی۔

ہم دونوں بھائیوں کے لئے ہمارے خاندانوں کے لئے یہ انتہائی درجے کا صدمہ تھا کہ ہمیں  ان کی ظاہری زندگی سے جدائی کا سامنا کرنا پڑا، ان کی ظاہری اور روزانہ کی دعاؤں سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا ،مگر امی جان نے جیسی موت چاہی تھی اس موت سے ہم کنار ہوئیں ،ایک آسان اور سکون والی موت، کہ مرتے وقت بھی وہ کسی دوسری ہستی کی محتاج نہیں ہوئیں تھیں۔ اور وہ بلاشبہ ایک فضیلت والی رات کو اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے جارہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کرونا کی وبا کی وجہ سے ہم بھائیوں نے اپنے طور پر جنازے کی اطلاع نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا میں نے فیس بک پر اور اپنے کسی وٹس اپ گروپ میں اپنے طور پر شیئر نہیں کیا تھا ، جنازے کا وقت بھی رات گیارہ بجے کے بعد تھا، مگر جنازے میں لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر میں اور میرا بھائی حیران رہ گئے تھے۔ میں نے ایک بزرگ سے کہا کہ آپ آرام کر لیتے اس وقت شریک نہ بھی ہوتے تو ہم بھائیوں کو کوئی شکایت نہ ہوتی۔ اُن  بزرگ نے کہا کہ بیٹا میں آپ کی وجہ سے قطعی طور پر شریک نہیں ہوا ہوں، میرا ایمان ہے کہ بعض ہستیوں کے جنازے میں شرکت کی وجہ سے جنازہ پڑھنے والوں کی بخشش ہو جاتی ہے، میں تو اس اُمید پر اس جنازے میں شریک ہوا ہوں، کہ اس وجہ سے شاید  میری بھی بخشش ہوجائے گی ۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں بلکہ میری زندگی لکھنے پڑھنے سے وابستہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply