لاک ڈاؤن۔ حجامت اور بیگم۔۔احمد شہزاد

لاک ڈاؤن کی بدولت گھر میں بیٹھے بٹھائے جہاں وزن بڑھا وہاں بال بھی اپنی حدود سے تجاوز کرکے ادھر اُدھر بھٹکتے دکھائی دینےلگے۔ بچوں نے تو یہاں تک کہنا شروع کر دیا اب پونی باندھ لیں یا ہیئر کیچر لگا لیں, جبکہ بیگم کہنے لگیں آپ نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے۔ ماتھے پرآئے بالوں کو شانِ بے نیازی سے پھونک مار کے ُاڑانا چاہا تو بیگم دیکھ کر بولیں اب اس عمر میں وحید مراد نہ بنیں۔ ہم نے بھی ترنت جواب دیا جب سامنے زیبا ہو تو وحید مراد کیا عمران ہاشمی بھی بنا جا سکتا ہے بیگم یہ سنتے ہی شرماتے لجاتے ہماری طرف بڑھنے لگیں ہم سمجھے نشانہ ٹھیک لگا ہے ہم ابھی پوزیشن سنبھال ہی رہے تھے کہ بیگم بالوں کی لٹ پکڑکرکہنے لگیں تمام سیلون بند ہیں کیوں نہ ان ناتراشیدہ زلفوں کو ہم قینچی سے سنوار دیں۔ اتنا سننا تھا کہ ہمیں بالوں کے لالے پڑ گئےکہاں وحید مراد ایسے بال کہاں نازک ناتجربہ ہاتھوں کی کٹنگ۔۔۔۔ دل کٹ کررہ گیا۔

ایسے میں کبھی ہم بالوں کو ہاتھ لگاتے اور کبھی قینچی کا تصور کر کے توبہ توبہ کرتے۔ اس پر بیگم بولیں آپ بالوں کے اس چھتے کے ساتھ افریقہ کے شہزادے لگ رہے ہیں ہم نے کہا ہم پہلے کون سا شہزدہ گلفام ہیں، ویسے ہماری زلفیں ہماری مرضی۔ بیگم نے کہا کہیں ایسا نہ ہو چڑیاں گھونسلہ سمجھ کر بسیرا کر لیں ،یہ سن کر ہم نے بالوں کی امان پا کر عرض کیا آپ کو کٹنگ کا کیا تجربہ؟ تو کہنے لگیں دو تین سہلیوں کے بال کاٹ چکی ہوں، بس اب بال میں ہی کاٹوں گی۔یہ نادر شاہی حکم سن کر ہمارا وہی حال تھا کاٹو تو بال نہیں۔۔۔۔

اس پر ہم نے بھی کہا کہ اگر بال کاٹنے ہیں تو ماحول ویسا ہی بنائیں سامنے ایک قدِ آدم آئینہ رکھیں، ریوالونگ چیئر ہو، اُونچی آواز میں میوزک لگا ہو، ہلکے ہلکے کندھے دبائیں اور بالوِں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے چمئی بھی کریں۔ پہلے تو بیگم نے گھور کر دیکھا پھر کہا “ایڈی میں ہیئر ڈریسر”۔

تھوڑی دیر بعد ہم ایک سعادت مند شوہر کی طرح سر جھکائے کرسی پہ براجمان تھے۔ بیگم نے بال کاٹنے سے پہلے ہماری گردن اتنی بار دائیں بائیں گھما کر جائزہ لیا کہ ہمارا تراہ نکل گیا کہ بال قینچی سے کاٹنے ہیں یا چھری سے۔ ویسے تو ہر شوہر بیگم کے قابو میں ہوتا ہے ہم تو اس وقت بے بسی کی حد تک قابو میں تھے۔ اس موقع پر سکھ حضرات یاد آئے ۔نہ بال بڑھنےکا مسئلہ نہ کٹوانے کا تردد۔

سب سے پہلے بیگم نے گردن پر کس کر کپڑا باندھا ہم نے بھی حوصلہ باندھا ، پھرقینچی پکڑی ہم نے مضبوطی سے دل پکڑا، انہوں نے بالوں میں کنگھی پھیری ہم نے خوف سے منہ دوسری طرف پھیرا، اس سے پہلے کہ قینچی چلتی بیگم کی زبان چلنا شروع ہو گئی “سیدھے بیٹھے رہو ، ادھر اُدھر مت دیکھنا اور نہ ہی سر ہلانا” ہماری حالت اس وقت ایسی تھی کہ مرغی چھری کے نیچے آئی ہو۔ بس ہمارے گلے سے اس وقت جو آخری گھگھیائی آواز نکلی وہ یہ تھی کہ “بسم اللہ ،اللہ اکبر”

اِدھر حجامت شروع ہوئی، ہمارے رونگٹے ہی کھڑے نہ ہوئے ،بال بھی مؤدب ہو کر کھڑے ہوگئے۔ ہم صرف اتنا کہہ پائے”صرف بال ہی اتاریئے نہ کہ کھال”۔

کنگھی کی رفتار ، قینچی کی جھنکار ، پانی کی پھوار اور بیگم کی ڈانٹ پھٹکارنے حالت ایسی کر دی کہ ہمیں کچھ دیکھنے سمجھنے کا حوصلہ نہ رہا۔ جیسے ہی قینچی کان کے قریب آتی ایسا لگتا کہ کان اب کٹا کہ کٹا، وہ تو خدا کا شکر بیگم نے عینک لگائی ہوئی تھی۔قینچی کی کٹ کٹ سے دل کٹ رہا تھا۔ دورانِ حجامت دل کی حالت ایسے ہی تھی جیسے موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل کبھی اُوپر جاتی ہے کبھی نیچے۔

تھوڑی دیر کے بعد بڑی خود اعتمادی سے بیگم نے ایک چھوٹا آئینہ سر کے پیچھےرکھا اور فخریہ کہا “دیکھیں” ڈرتے ڈرتے ہماری نظر پڑی تو یوں دکھائی دیا جیسے کسی چراگاہ کی اُوپر نیچے گھاس کاٹ دی ہو اب اس حالت میں نہ چوں کر سکتے تھے نہ چرا۔۔

بعد از حجامت سر اور چہرے کی عجب داستان رقم ہو چکی تھی۔ بال اس طرح کٹے تھے کہ چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہو گئی تھی۔ ایسے میں کبھی ہم سر کو دیکھتے کبھی مونچھوں کو،الہی! کیا صورت بنا دی ایسا لگ رہا تھا کوئی پرکٹا پرندہ ہے اور اُڑنے کو پر تول رہا ہے۔

دیکھا جو کٹوا کر بالوں کی طرف عجیب شخص سے ملاقات ہو گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نہا کر آئینے میں دیکھا تو خود پر ترس آ رہا تھا۔ اس سےتو اچھا تھا کہ بازار میں کسی لڑکی کو چھیڑ کر حجامت بنوا لیتے بلکہ ٹنڈ کروا لیتےکوئی افسوس تو نہ ہوتا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply