ترکی کی پیدائش ۔ سلطنتِ عثمانیہ (10)۔۔وہاراامباکر

ترک آزادی کی تحریک بہت نامساعد حالات میں لڑی گئی تھی۔ روس اور گریس کا ترک علاقوں پر دعویٰ تھا۔ کرد علاقوں کی آزادی طے کی جا چکی تھی۔ اتحادی افواج کا استبول پر قبضہ تھا۔ ترک سلطان اور حکومت عملاً اتحادیوں کی کٹھ پتلی تھے۔ ترک فوج شکست کے زخم چاٹ رہی تھی۔ تھک چکی تھی۔ جنگ کے لیڈروں کو سزا دی جا چکی تھی۔ اہم لیڈر مفرور تھے۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی کے اہم راہنماوٗں کو سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔ مرتد اور واجب القتل کا فتویٰ شیخ الاسلام کی طرف سے آ چکا تھا۔ سیوریس کے معاہدے میں کئی علاقوں سے ترکی دستبردار ہو چکا تھا جبکہ گریس کی افواج مسلسل آگے بڑھ رہی تھیں۔ انقرہ سے اسی کلومیٹر دور تھیں۔ استنبول تک پہنچ رہی تھیں۔ یہ وہ حالات تھے جو مصطفٰی کمال کو ملے تھے جہاں سے انہوں نے ترک آزادی کو ماسٹر مائنڈ کیا۔

تھکے ہوئے فوجی جوانوں اور اناطولیہ کی آبادی کے ساتھ ملکر پہلے روسی مطالبات کو ماننے سے انکار کیا۔ کاظم کارابیکر کی قیادت میں 30 اکتوبر 1920 میں قارص کو روسی قبضے سے چھڑوا لیا گیا۔ پیش قدمی جاری رکھی اور آرمینیا کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہ فتوحات تھیں جن کے نتیجے میں جب ترکی کی سرحد بنی تو ترابزون، ارضِ روم، وان، بتلیس کے صوبے مشرقی ترکی کا حصہ بنے۔ اٹلی کی افواج کو نیشلسٹ آرمی کے حملوں کی وجہ سے 1921 میں ترکی چھوڑنا پڑا۔ فرانس کو اناطولیہ سے فوج نکالنا پڑی۔ فرانس شام مل جانے پر مطمئن تھا۔ گریس فوج کے خلاف ترک جنگِ آزادی 1921 اور 1922 میں چلتی رہی۔ اگست 1922 تک نیشلنسٹ آرمی گریک فوج کو پسپائی پر مجبور کر چکی تھی اور گریک ازمیر تک محدود رہ چکے تھے۔ 9 ستمبر کو نیشلنسٹ آرمی ازمیر میں بھی داخل ہو گئی۔ گریک فوج کو اس سے دس روز بعد یہ شہر بھی چھوڑ دینا پڑا۔ سیوریس کے معاہدے میں ترکی جس زمین سے دستبردار ہوا تھا، کوئی بھی وہ علاقہ حاصل نہیں کر سکا۔

برطانیہ کے ساتھ امن معاہدہ 11 اکتوبر کو طے ہوا۔ اس بار ترکی کی نمائندگی عصمت نے کی جو سلطان کے نہیں، قوم پرستوں کے نمائندہ تھے اور مغربی محاذ کے کمانڈر تھے۔ ایک مہینے بعد انقرہ میں اسمبلی کے اجلاس میں سلطان کا عہدہ ختم کر دیا گیا۔ سلطان مہمت ششم کو معزول کر دیا۔ چھ صدیوں بعد عثمانی سلطنت کا خاتمہ کر دیا گیا۔

خلیفہ کا عہدہ برقرار رہا۔ مہمت ششم کے کزن عبدالمجید کو خلیفہ بنا دیا گیا۔ طویل اور مشکل مذاکرات کے بعد لوزین کا معاہدہ 24 جولائی 1923 میں ہوا۔ ترکی کو اس معاہدے میں اپنی موجودہ سرحدیں مل گئیں۔ جنگی جرائم میں سزایافتہ تمام ترک افسران اور عہدیداران کی سزائیں معاف ہو گئیں۔ ماضی کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ قوم پرست کامیاب ہو گئے تھے۔ اکتوبر میں اتحادی افواج نے استبول چھوڑ دیا۔ 13 اکتوبر کو انقرہ دارالحکومت قرار پایا اور 29 اکتوبر کو ری پبلک آف ترکی کی پیدائش ہوئی جس میں مصطفٰی کمال صدر بنے۔

سیوریس کے ذلت آمیز امن معاہدے کو تسلیم نہ کر کے انتہائی مشکل حالات میں ڈرامائی اور طویل جدوجہد ترک تاریخ کا ایک یادگار باب ہے۔ ان برسوں کے سائے آج بھی ترکی اور یورپ میں بداعتمادی کی وجہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترک ری پبلک بن جانے کے چھ ماہ بعد خلافت کا عہدہ بھی ختم کر دیا گیا۔ شاہی خاندان کے 120 افراد کو جلاوطن کر دیا گیا۔ اس پر ردِ عمل مصر، ہندوستان اور مشرقِ بعید سے بھی آیا۔ ہندوستان سے ایک وفد مصطفٰی کمال کے پاس آیا اور ان کو درخواست کی کہ وہ خود خلیفہ کا ٹائٹل خود اپنا لیں لیکن اس پر کان نہیں دھرے۔ امام یمن اور افغانستان کے بادشاہ کو خلیفہ بنانے کی تجویز آئی۔ عبدالمجید کوشش کرتے رہے کہ ان کی اپنی خلافت جاری رہے۔ یہ بھی کوشش کی کہ حجاز کا علاقہ ان کے سپرد کر دیا جائے۔ لیکن حجاز کا یہ قرعہ نہ ان کے نام نکلا اور نہ شریفِ مکہ کے۔ حجاز سعود خاندان کے پاس آیا۔ عبدالمجید نے سوئٹزرلینڈ میں بطور خلیفہ دنیا کے مسلمان لیڈروں کو اکٹھا ہونے کی دعوت دی۔ یہ کانفرنس نہ ہو سکی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس طرح سلطان عبدالحمید دوئم نے ریاست کو اکٹھا کرنے کے لئے اسلام کی شناخت کو استعمال کیا تھا، ویسے ہی نئی شناخت “ترک” سے کی گئی۔ ترکی کے علاقے میں کرد، عرب، جارجین، ابخازی، لاض، البانوی، سراکیسین وغیرہ تھے۔ ترک النسل ہونا کام نہیں کرتا تھا۔ سب کو ترک شہریت کی شناخت کے گرد اکٹھا کرنے کے لئے آہنی ہاتھوں کو استعمال کیا گیا۔ اپوزیشن اور سیاسی مخالفت کو کچلا گیا۔ ترک ریاست سے وفاداری کی اقدار کی تخلیق ہوئی۔ اس کا ایک نشانہ کرد بنے۔ سیورس کے معاہدے میں ان کو نیا ملک مل جانا تھا لیکن لوزین میں یہ منسوخ ہو چکا تھا۔ ترکوں اور کردوں کو باندھنے والے جو بانڈ تھے ۔۔۔ سلطنت، اسلامی قوانین، خلافت وغیرہ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ نئے ترکی میں سب ترک تھے۔ نسلی گروپ سے وفاداری کی جگہ نہیں تھی۔ ترک ریاست کے فرمان نے کردوں کو ترک بنا دیا تھا۔

ترکی کی فلاسفی کو سمجھنے میں یہ باریک نکتہ ہے جس کو مغربی مورخ سمجھ نہیں پاتے۔ عثمانی ریاست میں اقلیت مذہب کی بنیاد پر تھی۔ اور اس کے آخری برسوں میں اقلیت اچھا لفظ نہیں تھا۔ اقلیت اور اکثریت برابر شہری نہیں تھے۔ جدید ترک ریاست میں اکثریت اور اقلیت کا تصور نہیں۔ اقلیت کے لفظ کا استعمال ہی ہتک آمیز سمجھا جاتا ہے۔ تمام لوگ برابر ہیں۔ ترکی سب سے بالا قدر ہے۔ یورپی کردوں کو اقلیت قرار دینے پر زور دیتے ہیں۔ ترکوں کے لئے یہ لفظ، خواہ مذہبی حوالے سے استعمال کیا جائے یا نسلی حوالے سے، برابری کی اس بنیادی قدر کی خلاف ورزی ہے۔ کرد اقلیت کا تصور ترکی میں ناقابلِ فہم ہے۔ تمام لوگ ترک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کردستان میں شورشیں جاری رہی ہیں۔ کرد زبان کی پبلک نمائش پر پابندی ہے۔ تعلیم صرف ترکی زبان میں دی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے کرد تعلیم میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ کردستان کا لفظ ممنوع ہے۔ نقشوں میں یہ علاقہ الگ سے دکھانا ممنوع ہے۔

ترکی کے بننے کے بعد طرزِ حکومت آمرانہ رہا۔ تحریکِ آزادی کے نامساعد حالات نے ایک بڑے ہیرو کو جنم دیا تھا۔ اور بڑے ہیرو عام طور پر جبرواستبداد کو جنم دیتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے خلیفہ کا ٹائٹل تو نہیں لیا لیکن طریقہ وہی شخصی آمریت والا تھا۔ اپوزیشن کو سختی سے کچلنا اور یکطرفہ فیصلے کرنا ان کا سٹائل رہا۔ بڑے فیصلے کئے گئے۔ کئی ناگزیر، کئی مفید، کئی بے معنی، کئی قابلِ اعتراض۔ پھندنے والی ترکی ٹوپی ممنوع قرار پائی۔ اس کی جگہ ہیٹ نے لی۔ ہجری کیلنڈر کا استعمال ترک کر دیا گیا۔ درویش خانقاہیں، مزار، مقبرے بند کر دئے گئے۔ گھڑی میں چوبیس گھنٹے والا سسٹم اپنا لیا گیا۔ سوئٹزرلینڈ کا سول کوڈ اپنایا گیا۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں اہم فیصلے ہوئے۔ پریس کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ کمیونسٹ اور مذہبی اخبارات بند کر دئے گئے۔ سلطان عبدالحمید دوئم کے سٹائل کی سنسرشپ کی گئی۔ 1925 میں اپوزیشن جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اپوزیشن کے اراکین پر قتل کے مقدمات بنائے گئے۔

ترکی کی مغرب میں لکھی اور ترکوں کی لکھی تاریخ عام طور پر نئے ترکی میں کئے گئے جبرواستبداد کو نظرانداز کرتی ہے۔ کمال ازم ایسا لفظ ہے جس کے گرد کئی دہائیوں تک ترک سیاست گھومتی رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جنگِ آزادی میں ان کا کردار غیرمعمولی رہا لیکن سیاست میں وہ کسی کرشماتی لیڈر کی طرح شخصی ڈکٹیٹر شپ پر یقین رکھنے والے تھے۔

مصطفٰی کمال کے کمانڈر کاظم کارابیکر، جنہوں نے روسی محاذ میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی، نے جب اپنی یادداشت لکھی تو اس کو ضبط کر لیا گیا کہ کہیں ترکی بنانے کا کریڈٹ کوئی اور شئیر نہ کرے۔ یہاں تک کہ جب 1960 میں اس کو شائع کیا گیا تو پبلشر کو زیرِحراست لے کر کتاب ضبط کر لی گئی اور نو سال تک پبلشر کو جیل دی گئی۔ ترکی میں ایک کے بعد دوسرا فوجی انقلاب آنے کی وجہ کمال ازم کی آئیڈیولوجی تھی۔ کمال ازم عسکریت، جبر اور نسل پرستی ہے؟ یا یہ ترقی اور آزادی؟ یہ سوال ترکوں کو دہائیوں تک تقسیم کرتا رہا ہے۔ جس طرح سلطان عبدالحمید نے عثمان ارطغرل کی کہانی قوم کو اکٹھا کرنے کے لئے بنائی تھی، ویسے ہی ایک مِتھ مصطفیٰ کمال کی تقریر ہے۔ ہر قوم کو اپنے آغاز کے مِتھ کی ضرورت رہتی ہے۔

ترکی کا ماضی طویل اور وزنی ہے۔ کسی قوم کو، ان کی امیدوں اور انکے خوف کو، ان کے حال کو سمجھنے کے لئے ان کے ماضی کو جاننا پڑتا ہے۔ شاندار عثمانی سلطنت ترکوں کا ماضی تھا۔ مصطفٰی کمال کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر شکست کے جبڑوں سے فتح چھین لینا بھی ترکوں کے ماضی کا شاندار باب ہے۔ مصطفٰی کمال نے اپنی 1927 کی تقریر میں ترکی کو جواز کے لئے نئی کہانی فراہم کی تھی۔ شاید مستقبل کا مورخ جب ترکی کو دیکھے گا تو ترکش ری پبلک کے آغاز میں مصطفٰی کمال کا خواب عثمان ارطغرل کے دنیا پر سایہ کرنے والے خواب کی طرح پیدائش کے افسانے کے طور پر یاد رکھے گا۔ ہر قوم کے تخلیق کردہ اپنے اپنے افسانوں کی طرح۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمانی خاندان میں سلطنت ختم جانے کے بعد بھی سربراہ بنانے کا رواج چلتا رہا۔ اس خاندان کا چالیسواں اور آخری چشم و چراغ ارطغرل عثمان تھے، جنہیں “آخری عثمانی” کہا جاتا ہے۔ 1912 میں پیدا ہونے والے ارطغرل ابتدائی یورپ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جب ان کے خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ انہوں نے اپنی تمام زندگی نیویارک میں گزاری۔ 80 سال کی عمر میں 1992 میں واپس ترکی پہلی بار آئے اور ترک شہریت 2004 میں ملی۔ ان کا انتقال 2009 میں ہوا تو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا اور شاہی معیار کے مطابق رسومات ادا ہوئیں۔

عثمان کے خاندان کی شروع کردہ شاندار سلطنت جو صدیوں تک بامِ عروج پر رہی، تین برِاعظموں تک پھیلی رہی۔ اس خاندان کا باقاعدہ خاتمہ چالیسویں سربراہ کی تدفین کے ساتھ 2009 میں ہو گیا۔

عثمان ارطغرل سے شروع ہونے والی یہ داستان ارطغرل عثمان کے ساتھ تمام ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھ والی تصویر میں آخری سلطان مہمت ششم آخری بار شاہی محل چھوڑ رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply