• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاک انڈیا نیوکلیئر وار کی صورت میں کیا ہو سکتا ہے ۔۔ڈاکٹر عبدالواجدخان

پاک انڈیا نیوکلیئر وار کی صورت میں کیا ہو سکتا ہے ۔۔ڈاکٹر عبدالواجدخان

‌جنوبی ایشیا کی موجودہ خطرناک جیو سٹرٹیجک صورت حال میں جبکہ چین اور انڈیا کی افواج کے مابین لداخ سیکٹر میں کئی جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے آ منے سامنے کھڑی ہیں اور جنگ کا ممکنہ خطرہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔دوسری طرف انڈین فوجی و سیاسی قیادت پاکستان سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان آزاد کروانے  کی بارہا دھمکی دے  چکی ہے ۔لائن آ ف کنٹرول پر دونوں طرف سے روزانہ فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستانی وزیراعظم باربار دنیاکوانڈیا کی طرف سے فالس فلیگ آپریشن کرنے کے خدشے کا اظہار بھی کررہے ہیں، پاکستان اور انڈیا کے مابین محدود یا فل سکیل جنگ کے امکانات بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ ان حالات میں پاکستان کے نیوکلیئر پاور ہونے کی قدرو اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔کیونکہ روایتی جنگ میں بھارت کا پلہ بھاری ہے اور یہ نیوکلئیر صلاحیت ہی پاکستان کے کسی بھی دشمن کواسکے خلاف جارحیت سے روکنے کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان نے انڈیا کے جارحانہ عزائم کے پیش نظر ہی دفاعی حکمت عملی کے طور پر  2018 میں نیوکلیر پاور بننے کا فیصلہ کیا تھا۔اس وقت دنیا میں 8 ممالک نے اپنے آپ کو نیوکلیر پاور ڈیکلیئر کیا ہوا ہے جس میں سے 5 ممالک امریکہ، روس،چین،برطانیہ اور فرانس نے این پی ٹی پر دستخط کیے ہوئے ہیں ،جبکہ 3 ممالک انڈیا،پاکستان اور جنوبی کوریا این پی ٹی میں شامل نہیں ہیں۔جبکہ اسرائیل کے بارے میں ماہرین کی یہ رائے ہے کہ  وہ بھی نیوکلیئر پاور کا حامل ہے، لیکن اپنے سیاسی ودیگر مفادات کے پیش نظر اس کا اعلان نہیں کررہا۔اسکے پاس تقریباً 75 سے 400 وار ہیڈز ہیں۔جنوبی افریقہ نے صلاحیت حاصل کرنے کے بعد این پی ٹی میں شامل ہونے پر اپنے وار ہیڈز کو dismental کردیا۔

سٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں مجموعی طور پر 13,865 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جن میں سے نوّے فیصد سے زائد امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔انڈیا کے پاس ایک اندازے کے مطابق 110 سے 140 اور پاکستان کے پاس 130 سے 160 وار ہیڈز موجود ہیں ،جو کہ دنیا کے مجموعی وار ہیڈز کا 2 فیصد بنتا ہے۔جبکہ انڈیا کے پاس وار ہیڈ لے جانے کیلئے 150 سے 600 کلومیٹر رینج والا پرتھوی میزائل اور 700 سے 8000 کلومیٹر رینج والا اگنی میزائل ہے۔پاکستان کے پاس 300 سے 700 کلومیٹر رینج والے ابدالی و حتف اور 900 سے 3000 کلومیٹر رینج والا شاہین میزائل ہے۔پاکستان ائیر فورس کے پاس وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت کے حامل 36 اور انڈین ائیر فورس کے پاس 46 جنگی طیارے ہیں۔جبکہ پاکستان نیوی کے پاس 8 کروز میزائل بردار بحری جہاز اور انڈین نیوی کے پاس 14 کروز میزائل بردار بحری جہاز موجود ہیں۔

اب  ایک مختصر سا جائزہ لیں  گے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور انڈیا کے مابین نیوکلیئر وار ہوتی ہے تو ممکنہ طور پر دونوں ممالک اور دنیا کو کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔

امریکن نیوجرسی یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات پروفیسر ایلن روبوک کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگر دونوں ممالک ہیرو شیما پر پھینکے جانے والے 15 کلو ٹن وزنی “لٹل بوائے”نامی جیسے 150 / 150 وارہیڈز ایک دوسرے پر استعمال کرتے ہیں تو پاکستان اور انڈیا کے بیشتر بڑے شہر تباہ اور 50 ملین افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔اور 100 کلو ٹن پاور کی صورت میں 125 ملین افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔جبکہ ایک ارب کے قریب آبادی معذوری و دیگر امراض کا شکار ہوسکتی ہے۔اس نیوکلیئر وار سے اوزون لیئر شدید متاثر ہوگی اور فضاء میں پھیلنے والی آ لودگی اور کالے بادلوں سے سورج کی توانائی انتہائی کم ہونے سے درجہ حرارت آئس ایج کی سطح 5 سنٹی گریڈ تک گر سکتاہے۔اور اس ٹمپریچر کو نارمل سطح پر آ نے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔جس سےجنوبی ایشیا اور پوری دنیا میں زراعت شدید متاثر ہوگی اورخوراک کا شدید بحران پیدا ہو سکتاہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی سمندری ماحولیاتی نظام اور مچھلی کی پیداوار کیلئے بھی تباہ کُن ہو گی اور اس وجہ سے دنیا قحط کا شکار ہو سکتی ہے۔سورج کی انرجی کم ہونے سے دنیا بھر میں بارشوں میں 30 فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق اس طرح کی موسمیاتی تبدیلی پہلے بھی آ چکی ہے لیکن وہ انسانوں کے ہاتھوں نہیں آئی تھی بلکہ قدرتی تھی۔ جب 66 ملین سال پہلے جوہری سیارچے کے کریش کے نتیجے میں بلینز ٹن سلفر فضاء میں پھیل گئی اور دنیا کا ٹمپریچر انتہائی نچلی سطح پر گرگیا۔ ماہرین کہتے  ہیں کہ اسں ماحولیاتی تبدیلی نے ڈائنو سار کی نسل کو معدوم کرنے کے عمل کو تیز کردیاتھا۔تحقیق کے مطابق لمیٹڈ نیوکلیئر وار کی صورت میں بھی اوزون لئیر شدید متاثر ہوگی اور الٹرا وائلٹ ریڈی ایشن کی وجہ سے ٹمپریچر 25 سال تک کم از کم سطح پر آجائے گا، جس سے صرف یہ خطہ نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے بھی اور خاص طور پر ان امور کو پیش نظر رکھ کر کوئی بھی باشعور قیادت دنیا کو اس ہولناک تباہی سے دوچار نہیں کرنا چاہیے گی۔لہذا اقوام متحدہ ،یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ کو دنیا کے اس نیوکلئیر فلیش پوائنٹ پر فوری توجہ دیتے ہوئے اس خطے کے تنازعات کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرنے چاہئیں  ۔دوسری جنگ عظیم بھی ہٹلر کے جارحانہ عزائم کو بروقت نہ روکنے کی وجہ سے دنیا میں تباہ کن جانی و معاشی تباہی کا باعث بنی تھی۔بدقسمتی سے آج نریندرمودی اسی ڈیزائن کو لیکر آ گے بڑھ رہا ہے ۔اپنی جارحانہ پالیسیوں کے تحت کہیں پاکستان کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو حق  خود ارادیت دینے کے بجائے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے تو کہیں چین ،نیپال اور بنگلہ دیش کے علاقے ہڑپ کرنے کی کوشش میں ہے۔اس لئے دنیا کی مقتدر قوتوں اور اداروں کو دوسری جنگ عظیم سے سبق سیکھتے ہوئے مودی کی جارحانہ پالیسی کا نوٹس لیتے ہوئے فوری راست اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ نہ ہو کہ 20 ویں صدی کا یہ ہٹلر دنیا کیلئے تیسری جنگ عظیم شروع کرانے کا باعث بن جائے۔‌

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply