ارطغرل غازی اور ہماری شوبز انڈسٹری۔۔ذیشان نور خلجی

کیا کامنی شیکھر کو اپنے قابو میں رکھ پائے گی یا وہ واپس شملہ لوٹ جائے گا؟ پدما وتی کی چالیں کیسے ہوں گی کامیاب؟
دھم دھم تنانانانا۔۔۔
نندنی کی کوکھ میں پیدا ہونے والا بچہ اس کے پتی راج کا ہے یا پروفیسر موہن داس کا؟ کیا شانتی اپنی بہو کی گود بھرائی کی رسم میں اس کے پاپوں سے پردہ اٹھا پائے گی؟ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بہت کچھ جاننے کے لئے دیکھتے رہئیے، پاکستان کا قومی ٹی وی چینل پی ٹی وی۔
کیسی مزے کی بات ہے اس ایک لفظ پی ٹی وی نے سارا مزہ ہی کر کرا کر دیا ہے۔ کیوں کہ ہمیں اندازہ ہے دنیا ادھر کی ادھر ہو سکتی ہے، نواز شریف صحت یاب ہو کر وطن واپس لوٹ سکتے ہیں، عمران خان عوام سے کئے گئے وعدے پورے کر سکتے ہیں، بلکہ شاہد خان آفریدی وزیراعظم منتخب ہو کر بے روزگاری کا خاتمہ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر نہیں ہو سکتی تو پی ٹی وی پر ایسی گھٹیا ڈرامے بازی نہیں ہو سکتی۔ اور اس سب کے لئے ہمیں ذی ٹی وی یا سٹار پلس کو ہی سرچ کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر پی ٹی وی پر معیاری ڈراموں کی بجائے مولا جٹ، بڈھا گجر، لاڑا پنجاب دا اور بلو 302 جیسی فلمیں دکھائی جائیں گی تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہمیں ساس بہو کی لڑائیاں اور نند بھابھی کے مکر دیکھنے کے لئے سٹار پلس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور کچھ یہی وجہ پی ٹی وی پر حالیہ نشر ہونے والے ترک ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی کی ہے۔
دراصل ان دنوں شوبز میں معیاری کام کا کچھ ایسا کال پڑا ہوا ہے کہ وہ ڈرامے جو کبھی ہماری شوبز انڈسٹری کی پہچان تھے، بننا بند ہو چکے۔ اور اب ہے تو صرف یہ کہ
” یہ ایک کالج گرل ہے جو کہ اپنے چچا زاد کی منگ ہے۔ لیکن اسے اپنی دوست کا بھائی پسند آ گیا ہے اور پھر ایک دن چپکے سے یہ اس کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ بعد میں وہ اپنے وعدوں سے مکر جاتا ہے اور اسے محبت میں دھوکہ دیتا ہے۔ ہیروئن کو اپنے کئے کی سزا مل چکی ہے۔ یہ واپس اپنے ماں باپ کی دہلیز پہ آ جاتی ہے اور یہاں اس کا چچا زاد ابھی تک اس کا منتظر ہوتا ہے۔”
لو جی ! ‘ کہانی مُک تے کِلّا ٹُھک ‘
اور سچ بات تو یہ ہے تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ قریباً سبھی ڈراموں کے لئے یہی ایک سٹوری بچی ہے۔ اور آپ تو جانتے ہیں ہم لہو گرم رکھنے والی قوم ہیں تو پھر ظاہر سی بات ہے، دھواں کے اے ایس پی اظہر اور ایلفا براوو چارلی کے کیپٹن گل شیر کی کمی کسی کو تو پوری کرنا ہو گی، چاہے پھر وہ گھوڑے پہ بیٹھا عثمانی خلافت کا جد امجد ارطغرل غازی ہی کیوں نہ ہو۔
ان دنوں شوبز سے وابستہ افراد واویلا کر رہے ہیں کہ ایسے بدیسی ڈراموں سے ہمارا روزگار ختم ہو رہا ہے۔ گو بات ان کی درست ہے لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ جب تک ہم معیاری کام کرتے رہے تب تک ہمیں ڈرامے امپورٹ کرنے کی ضروت نہ پڑی۔ بلکہ تب ہمارا کام تمام دنیا میں دیکھا جاتا تھا اور پاکستانی ڈرامہ کی ایک الگ پہچان تھی۔ لیکن جب سے ہمارے پاس چند ایک گھسی پٹی سٹوریوں کے سوا اور کچھ نہ رہا دکھانے کو۔ ہم جمود کا شکار ہو چکے اور تفریح کے ساتھ ساتھ کچھ ڈیلیور کرنا تو دور کی بات ہم صرف تفریح کا سامان بھی نہ کر سکے تو پھر ہم سب کے پیارے علامہ ضمیر اختر نقوی کے الفاظ میں “یہ تو ہوگا۔”
آج بھی اگر ہم ارطغرل غازی کا رونا چھوڑ کر اپنے کام کو معیاری بنانے کی طرف توجہ دیں تو پاکستانی انڈسٹری کو کھویا ہوا مقام واپس دلا سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی ارطغرل غازی کی نشریات بند کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ ناظرین کو کچھ اچھا دیکھنا ہے سو وہ کسی دوسرے میڈیم سے دیکھ لیں گے۔ تو ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ بجائے ترکش ڈراموں کو برا بھلا کہنے کے، ہم خود کچھ ایسا پیش کریں کہ لوگوں کو کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
پس نوشت: میں کسی عثمانی خلافت کا پروموٹر ہوں نہ ہی ابھی تک ارطغرل غازی کی ایک قسط بھی دیکھی ہے. ہاں، دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح پشاور بی آر ٹی پہ شہزادہ صاحب کو انسپکشن کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور شو بزنس والوں کو اتنا ہی کہوں گا ابھی ایک اکیلا غازی آیا ہے اور آپ کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی۔ سو وقت ہے ابھی بھی سنبھل جائیں ورنہ عثمانی خلافت کی چھ سو سال کی تاریخ ہے اور پتہ نہیں کتنے ہی بادشاہ ہیں تو یہ نہ ہو، بجائے صلیبیوں کو فتح کرنے کے، کہیں وہ آپ کی انڈسٹری کو ہی فتح نہ کر جائیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply