زندگی چلتے رہنے کا نام ہے۔۔عمران علی

پروردگار عالم نے کائنات کو اس قدر حسین پیمانے پر تخلیق کیا ہے کہ انسان اپنی کروڑوں کاوشوں کے باوجود بھی اس کائنات کا کروڑواں حصہ بھی تسخیر نہیں کر پایا ہے، پروردگار کی تخلیقات میں سے بہترین انسان کو ہی ٹھہرایا گیا ہے، جیسا کہ رب کريم نے قرآن مجید میں فرمایا ” ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا” ۔

حضرت انسان کو عطاء کردہ یہ مرتبہ اس کو رب کریم کی طرف سے عنایت کردہ علم اور فہم و ادراک کی وجہ سے ہے، انسان کی جبلت میں کھوج اور سوالات کے جوابات کی تلاش ایک بنیادی عنصر کے طور پر پایا جاتا ہے، اسی بناء پر انسان مظاہر قدرت میں موجود رازوں کو افشاں کرنے کی جستجو میں رہتا ہے، بات جب تک تو سیکھنے اور مثبت فوائد کے حصول تک رہی تب تک تو انسان کو اس کے علم نے بہت تقویت دی اور بیش بہا فوائد باہم پہنچائے، مگر جب انسان نے اپنے علم کو منفی سرگرمیوں کی نظر کرنا شروع کیا جیسے کہ ہتھیار، مہلک اور انسان دشمن جرثوموں کی دریافت، ایٹمی دھماکے، جنگلات کی بے دریغ کٹائی جیسے قبیح کام سرانجام دیے تو قدرت نے اسے بہت سی سزائیں بھی دیں،جو کہ کبھی قدرتی آفات کی صورت میں سامنے آئیں یا پھر کسی موزی مرض کی شکل اختیار کرکے حضرت انسان کی ہلاکت و تباہی کا باعث بنی، جب جب انسان نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ کرے گا تو اس کے ردعمل کو بھی سہنا ہوگا،مگر قدرت کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ انسان کی سکت سے زیادہ اس پر آزمائشیں نہیں ڈالتی۔

پوری دنیا حالیہ دنوں میں تاریخ کے بد ترین وبائی مرض سے بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے، یورپ، امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جیسی بڑی معیشتیں بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں، اب تک تقریباً 3 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور 50 لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہوکر بیمار پڑگئے۔

بد قسمتی سے اس انفیکشن کے سے متعلق کوئی دواء اور ویکسینیشن موجود ہی نہیں ہے، اور عالمی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس وباء کے خاتمے کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

انہی دنوں Covid 19 کو لے کر Herd Immunity کا بہت تذکرہ کیا گیا،. ، ہرڈ امیونٹی (اجتماعی مدافعت) سے مراد آبادی کے ایک بڑے حصے کو متعدی بیماری کی ویکسین یا اسی بیماری میں مبتلا کر کے ان کے جسم میں اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنا ہے تاکہ وبا کے پهیلاؤ کا سلسلہ روکا جا سکے۔”ڈاکٹر رائن” نے غصے میں کہا تھا ’انسان ریوڑ نہیں ہے، میرے خیال میں ہمیں اس وقت ایسے الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط ہونا چاہیے جب ہم انسانوں میں قدرتی انفیکشنز کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ الفاظ (ہرڈ امیونٹی) ایک ایسی وحشیانہ مساوات کو جنم دے سکتے ہیں جس میں انسان، زندگی اور تکلیف مرکزِ نگاہ نہیں رہتے۔

پاکستان میں گزشتہ چند دنوں سے اجتماعی مدافعت کا ذکر سننے کو مل رہا ہے اور اس کا تعلق لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار خاتمے کے فیصلے سے بهی جوڑا جا رہا ہے۔مارچ کے آغاز میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس میں ملک کے حساس اداروں نے کورونا وائرس سے ہونے والے ممکنہ جانی اور معاشی نقصان سے متعلق ایک جامع رپورٹ پیش کی تهی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہی وہ پہلا موقع تھا جب اجتماعی مدافعت کا ذکر سننے کو ملا اور یہ تذکرہ ہوا کہ ویکسین دریافت ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں ہرڈ امیونٹی کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔”لیکن یہ صرف قیاس آرائی ہی ہے”۔اس کا واحد حل احتیاط اور Social Distancing ہے۔

اب ہمیں بحیثیت قوم بہت زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ یہ بہت منطقی طور پر درست ہے کہ آخر کتنے عرصے تک لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے، پہلے ہی پوری دنیا بشمول پاکستان میں ہزاروں لاکھوں افراد اپنی نوکریاں کھو بیٹھے ہیں، تعلیمی نظام بھی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، دنیا اس بات کا ادراک حاصل کر چکی ہے کہ اب ہمیں اس بیماری کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے اسی کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا، اسی اصول کا اطلاق پاکستان میں ہوگا، کیونکہ” زندگی چلتے رہنے کا نام ہے” ، مگر کیا ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں؟۔

اس عیدالفطر کے موقع پر پورے ملک سے خبریں موصول ہوئی ہیں کہ کہیں بھی اس وباء سے متعلق قواعد و ضوابط پر عملدرآمد نہیں کیا گیا،ہم نے ” معاشرتی فاصلہ” کے بنیادی اصول تک کو ہوا میں اڑا دیا، عیدالفطر کے دو دنوں میں بیسیوں حادثات میں لوگوں نے بے احتیاطی کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا دیں، ایسا نہیں چل سکتا، تمام کی تمام ذمہ داری اداروں پر نہیں ڈالی جاسکتی، ہمیں انفرادی طور پر ذمہ داری کا ثبوت دینا پڑے گا، ہمیں دنیا بهر میں مروجہ دیگر طریقوں جیسا کہ وائرس سے متعلق آگاہی مہم، ہاتھ دھونا ماسک پہننا اور سماجی دوری پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا، بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی عادت کو ترک کرنا ہوگا، ہمیں اپنے لائف سٹائل کو بدلنا ہوگا تاکہ ہم اس موذی وباء کا مقابلہ کر کے زندگی میں آگے کی طرف بڑھیں، کیونکہ ہمیں معاشی ترقی کی از حد ضرورت ہے، تاکہ ہم اپنے اہل وطن کو بہتر زندگی کی فراہمی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں، اس وقت ہمارے ملک کو اپنے شہریوں کی طرف سے بھرپور اور مکمل ذمہ داری درکار ہے، تاکہ ہم سب مل کر اس وباء کو شکست دے سکیں، ہم نے ہمیشہ ثابت کیا ہے، آج بھی پوری دنیا میں پاکستان کو ڈینگی بخار کو شکست دینے والے صف اول کے ملک کے طور پر ایک کیس سٹڈی مانا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلیں مل کر مٹی کا قرض اتارتے ہیں، ہم مل کر اس وباء کو یقینی شکست دیں گے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply