لاک ڈاؤن اور پچاس لاکھ نئے بچے۔۔اجمل ملک

ڈاکٹریونس بٹ کہتے ہیں کہ’ فلاسفر وہ ہوتا ہے جو مسئلے کویوں حل کرے کہ لوگ اس حل کے بعد کہیں اس سےتومسئلہ ہی اچھا تھا‘‘۔یہ جملہ کئی سال پہلے پڑھا۔ بظاہرسمجھ بھی آگیا تھا لیکن اندازہ نہیں تھا کہ یہ جملہ کس کیفیت پر فٹ بیٹھے گا۔؟۔ بالکل ویسے ہی جیسےبازار سےلپ اسٹک لینے جانے والی خواتین ڈوپٹہ خرید لاتی ہیں لیکن اندازہ نہیں ہوتا کہ کس سوٹ کے ساتھ فٹ بیٹھے گا ۔؟۔ خواتین ہر وقت کچھ نہ کچھ کر رہی ہوتی ہیں ۔ اسی محنت اور لگن کی وجہ سے انہیں ایک دن وہ چیز مل جاتی ہے ۔جو گم تو ہوئی ہوتی ہے لیکن وہ اسے ڈھونڈنہیں رہی ہوتیں ۔۔
دوسری جانب مرد بھی جگاڑ لگانے کے ماہر ہوتے ہیں۔کہتے ہیں کہ مرد کے پاس ہتھوڑا ہو تو اسے ہر مسئلہ کیل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن فلاسفر والے جملے کو ہتھوڑے سے بھی نہیں ٹھوکا جا سکا۔ ’’اولے عشق کی طرح ککھ وی پلے نہیں پڑا‘‘۔ میرے دوست مرید کا قول ہے کہ مرد باتیں گول کرنے کےپلئیر ہوتے ہیںاور خواتین باتیں لمبی کرنے کی’’کوچ‘‘ ہوتی ہیں ۔یوں فلاسفر والی بات۔ باتوں کی بھیڑ میں کہیں گم ہی ہو گئی تھی۔۔کہ چند روز قبل بی بی سی پر ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ پاکستان میں کورونا ۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے رواں سال پچاس لاکھ بچے پیدا ہونے کا امکان ہے۔توڈاکٹر یونس بٹ والا جملہ ’’حل سے زیادہ مسئلہ اچھا ہے‘‘۔سمجھ آیا۔ اندازہ کریں کہ ایک طرف احتیاط یہ تھی کہ منہ سے ماسک نہیں اتارنا اور سماجی دوری رکھنی ہے ۔اوردوسری طرف پچاس لاکھ بچے۔ ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

پہلوان کوگاڑی نے ٹکر ماری۔تو اس نےڈرائیورکو باہر نکالا ۔زمین پر ایک لکیر کھینچی اور بولا : اگر لائن کراس کی تو بہت ماروں گا۔
پھر پہلوان نے ڈرائیور کی کار توڑ ڈالی۔لیکن وہ ہنستا رہا۔
پہلوان:تم ہنس کیوں رہے ہو۔؟
ڈرائیور:جب تم گاڑی توڑ رہے تھےتو میں نے کئی بار لائن پار کی تھی ۔
جب کورونا تابڑ توڑ حملے کر رہاتھا۔ ہم نےبھی پابندیوں کی کنٹرول لائن کئی بارپار کی اور ۔ سرکار پر ہنستے رہے۔ سڑکوں پر زندگی رواں رہی۔ دعوتیں جاری رہیں۔۔ حتی کہ شادیاں بھی چلتی رہیں۔شادی والے گھر سے دلہن کو موٹر سائیکل پر بیاہ لانے کو فخرسمجھا گیا اوربند دکان کھلوا کر میچنگ شمیز لانے پر خوشیاں منائی گئیں ۔۔لاک ڈاون کے دوران ۔ ہر۔ اُس کام کی گنجائش پیدا کی گئی ۔ جس کا امکان بھی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔۔ پچاس لاکھ بچوں کا مطلب ہے کہ کم ازکم ایک کروڑمیاں بیوی سماجی دوریوں کے بجائے ’’ازدواجی نزدیکیوں‘‘کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ستم یہ کہ اب کرفیو لگائے جانے کی اطلاع ہے۔ شائد مزید پچاس لاکھ بچے۔؟ ۔
شادی کے پہلے سال خاتون نے ہسپتال میں بچے کو جنم دیا۔ دوسرے سال دوسرا بچہ۔۔ پھر تیسرا ۔ چوتھا اور پانچواں ۔شادی کے چھٹے سال وہ ہسپتال نہیں آئی۔ عملہ خاصا پریشان تھا۔اچانک وہ خاتون مل گئی لیکن حاملہ نہیں تھی۔
نرس:تم پچھلے سال آئی نہیں۔ تمہارے شوہرتوزندہ ہیں۔؟
خاتون: جی جی وہ تو زندہ ہیں۔دراصل مجھےپتہ ہی ۔پچھلے سال چلا ہے کہ بچہ پیدا کیوں ہوتا ہے۔؟۔
شادی اجنبی سے ہو یا آشنا سے۔شناسائی قبل از۔ رشتہ ازدواج ہو یا پھر بعد از ۔عقد ۔ اس کا حتمی نتیجہ بچے ہوتے ہیں۔بچے ہماری۔ایکسٹینشن ہیں۔ اور۔ گھروں میں ایکسٹینشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے ہم بچے پیدا کرتے ہیں۔شادی کے بعدمیکے اورسسرال کو سب سے زیادہ فکر۔ ہماری ایکسٹینشن کی ہوتی ہے۔ذرا سی دیر ہو جائے تو رشتہ دار دبے لفظوں میں ۔’’ وہ‘‘ سوال پوچھنے لگتے ہیں ۔جس کا جواب صاف نظر آ رہا ہوتا ہے۔لیکن میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ بچے ضرورت کی وجہ سے نہیں مواقعے ملنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔۔ اگر میاں بیوی بچے کم چاہتے ہیں تو انہیں ۔ آپس میں پیار سے رہنا ہوگا ۔ کیونکہ وہ جتنازیادہ لڑیں گے۔ صلح کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہو ں گےاور ایکسٹینشن بھی بڑھتی رہے گی
کہتے ہیں کہ یورپ میں بچہ پیدا ہو جائے تو اسے کھلونے لے کر دیتے ہیں تاکہ کھیلتا رہے اور پاکستان میں بچہ پیدا ہو جائے تو ایک اور پیدا کرتے ہیں تاکہ دونوں آپس میں کھیلتےر ہیں۔لیکن مرید کہتا ہے کہ بچہ ایک ہونا چاہیے۔ کیونکہ بچہ ایک ہے تو آپ والد ہیں اور بچے دوہیں توآپ ریفری۔ پاکستانی معاشرے نے ریفری بہت زیادہ پیدا کئے ہیں ۔سرکار نے بھی بچے دو ہی اچھے کا نعرہ لگا کر ریفریز کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔۔تفریح انسان کےلئے ضروری ہے اورلاک ڈاؤن کے دوران پچاس لا کھ متوقع بچوں سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ سستی تفریح سے بھی بھر پور لطف اٹھا سکتے ہیں ۔۔ کورونا کی وجہ سے چونکہ گراؤنڈ، جم اور پارکس بند تھے۔ اس لئے’’ان ڈور گیمز‘‘عروج پر رہیں۔۔ کورونا وائرس کتنا خطرناک ہے۔اس کا اندازیوں لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص کورونا پازیٹو ہے توموت کے خوف سے اسے گھر سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے کمرے کو گھر سے نکال دیا جاتاہے ۔ ہمسائے اس گھر کی طرف منہ کرکے سانس بھی نہیں لیتے ۔ اس گلی کوباقی محلے سے دور کردیا جاتا ہے ۔باہر کڑا پہرا بھی لگایا جاتا ہےکیونکہ وائرس جان لیوا ہے ۔ ایسے خوفناک حالات میں ہم نے پچاس لاکھ بچوں کی بنیاد رکھی ہے ۔ بقول اقبال ساجد
جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم اسی گھر میں رہتےہیں ۔
بی بی سی کے مطابق ’’وبا کی وجہ سےپاکستانی معیشت کی شرح نمو منفی 0.5 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ جس کے نتیجہ میں غربت، بے روزگاری اور بھوک میں اضافہ ہوگا۔اس معیشت پر ابھی پچاس لاکھ بچوں کا بوجھ بھی پڑنا ہے‘‘۔
تقریبا تین ماہ جاری رہنے والا لاک ڈاؤن نرم ہوا تو رات کو چہل قدمی کے لئے نکلنے والےجوڑوں کے جسمانی خدوخال تقریبا ایک جیسے نظر آئے۔ لاک ڈاؤن کے دوران کئی باپوں کی جسامت۔ ماؤوں جیسی ہو چکی ہے ۔ یہ وہ شوہر ہیں جنہوں نے بیویوں کے ساتھ ساتھ اپنا بوجھ بھی دُگنا کرلیا ہے۔ان ’’ pregnant‘‘مردوں کو۔ دنیا کا کوئی سی سیکشن نارمل حالت میں واپس نہیں لا سکتا ۔ مرید کہتا ہے کہ۔ایسے مردوں کی مثال فیس بک پر جعلی اکاونٹ چلانے والے اُس لڑکے جیسی ہے ۔جو لڑکی تو بن گیاہے لیکن ساری عمر ماں نہیں بن سکتا۔ جبکہ pregnant عورت کی زندگی کاسب سے برا۔ لمحہ وہ ہوتا ہے ۔ جب لوگ اسے مبارک دینے کے بجائے جم جانے کا مشورہ دینے لگتے ہیں‘‘۔
پچھلے دنوں پی ٹی آئی حکومت کی سابق مشیراطلاعات فردوس عاشق اعوان کی ا یک ویڈیو وائرل ہوئی۔ جس میں انہوں نے خاتون سے پوچھا۔لاک ڈاؤن کےدوران حکومت نے جو بارہ ہزار روپےدئیے ہیں ۔ اس رقم کا کیا کرو گی ۔ ؟
خاتون : کرنا کیا ہے۔؟۔ بارہ میرے بچے ہیں۔
فردوس عاشق اعوان : (حیرانی سے) تمہارا شوہر اور کیا کرتا ہے۔’’ اس کام‘‘کے علاوہ ۔؟
پاکستانی قوم زیادہ گرمی اور زیادہ سردی میں کام نہیں کر سکتی اور جب موسم خوش گوار ہوتا ہے تو ان کا ویسے ہی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔۔ مزاج میں عجب رنگینی سی اتر چکی ہے۔ طبعیت مغلیائی ہو چکی ہے۔سوائے ’’حرم‘‘وسیع کرنے کےکسی کام کو جی نہیں مچلتا ۔خوامخواہ فلاسفر بنے بیٹھے ہیں۔ فلاسفر بھی وہ جن سےمتعلق ڈاکٹر یونس بٹ نے کہا تھا کہ’’ فلاسفر وہ ہوتا ہے جو مسئلے کویوں حل کرے کہ لوگ کہیں اس سے تو مسئلہ اچھا تھا‘‘۔کورونا جیسے مسئلے کے عوض پچاس لاکھ بچے بہت ہی براحل ہے۔سید ضمیر جعفری یاد آگئے۔
شوق سے لخت جگر نور نظر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

Facebook Comments

اجمل ملک
مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ بیورو چیف ایکسپریس نیوز۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply