سعودی عرب کی فلم انڈسٹری۔۔منصور ندیم

شاید آپ کو پتہ نہ ہو کہ دنیا میں سعودی عرب پچھلے دو برسوں پہلے  تک وہ واحد ملک تھا، جہاں ایک بھی سینما گھر نہیں تھا، اس کے علاوہ سعودی عرب کی فلم انڈسٹری بھی نہ تھی، حتیٰ  کہ قومی ٹی وی چینل کے لئے بننے والے ڈراموں میں بھی اداکاروں کے لئے سعودی مرد تو اداکاری کرسکتا تھا مگر سعودی خواتین کو ڈراموں میں بھی اداکاری کی اجازت نہیں تھی۔ڈراموں میں عورت کے کردار کے لئے مصری یا اردنی خواتین لی جاتی تھیں۔

موجود عہد کے حکمران ملک سلمان کے صاحبزادے محمد بن سلمان جو اس وقت  سعودی عرب کے ولی عہد بھی ہیں، انہوں نے 3 سال قبل سعودی معاشی و ترقیاتی پروگرام Vision 2030 اور سیاسی، قانونی و انتظامی طور پر جہاں ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں حیرت انگیز اقدامات کیے ہیں، جن میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت، کوڑے مارنے کی سزا اور نابالغ بچوں کی سزائے موت کو معطل کرنا شامل ہیں ، وہاں سینما گھر بھی کھولنے کی اجازت دی ہے۔

حالیہ دنوں میں  شارجہ میں ہونے والے   بین الاقوامی فلمی میلہ انٹرنیشنل ٹریک میں سعودی عرب بھی اپنی 2 سعودی فلمیں دکھا رہا ہے۔

کورونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگ گھروں میں ہیں، شارجہ فلمی میلہ “فی بیتنا سینما” (ہمارے گھر میں سینماہال) کے عنوان سے بچوں اور نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے دلچسپ فلمیں دکھا رہا ہے۔
اس میلے کی انتظامیہ کا کہنا ہےکہ ان دنوں معاشرے میں یہ عمل بہت اہم ہے، ضروری ہے کہ سب لوگ گھروں میں رہیں اور اہل خانہ کے ساتھ یاد گار لمحات گزاریں۔

مئی میں 7 ممالک کی نو فلمیں نیٹ پر دکھائی جارہی ہیں ان میں دو سعودی فلمیں بھی ہیں، دونوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی دیا جارہا ہے،میلے میں فلمیں لوگوں کو انٹرنیٹ پر پیش کی جارہی ہیں۔

ان فلموں کا تعارف یہ ہے۔

1-   سعدیۃ  سابت سلطان
ترجمہ ’سعدیہ نے سلطان کو چھوڑ دیا‘ ۔

اس سعودی فلم کی کہانی یہ ہے کہ سلطان نامی ایک ڈاکٹر ہے اور بے روزگاری کی زندگی گزار رہا ہے، روزی روٹی کے لیے آئس کریم ٹرک کے ڈرائیور کے طور پر کام کرنے لگا۔ اسے اپنی بیٹی سعدیہ بے حد عزیز ہے وہ اس سے کہیں دور سکونت پذیر ہے ڈاکٹر نے اپنی بیٹی سے خیالوں کی دنیا میں ملنے کے لیے کٹھ پتلی کو اپنی بیٹی سمجھ لیا ہے۔ وہ تنہائی میں کٹھ پتلی کو اپنی بیٹی مان کر اس سے ملتا ہے۔ ایک دن کٹھ پتلی اس کی زندگی سے غائب ہوجاتی ہے۔ یہ فلم نفسیاتی محبت پر مبنی ہے۔

فلم سعدیہ سابت سلطان کی ہدایتکار جواہر العامری ہیں۔ اس فلم کا دورانیہ 30 منٹ کا ہے۔ اس فلم میں نایف الظفیری اور خالد یسلم نے اداکاری کی ہے۔

2-  تعایش
ترجمہ : ’پرامن بقائے باہم‘

اس فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ دو عرب مسلمان طلبہ امریکہ میں تعلیم کے سلسلے میں مقیم ہیں اور ایک ہی فلیٹ میں ساتھ رہ رہے ہیں۔ دونوں کو فٹ بال سے جنون کی حد تک پیار ہے، اور ان کے کئی مشاغل ایک جیسے ہی ہیں، دونوں میں بہت اچھی دوستی بھی ہے مگر آہستہ آہستہ   مسلکی نفرت دونوں کو ایک دوسرے سے دور کردیتی ہے اور یہ دوری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دونوں کو یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں مختلف مسلم فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ معلوم ہوتے ہی دونوں کے درمیان ہنسی مذاق اور دل لگی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے دونوں کے درمیان اچانک فاصلے آ جاتے ہیں، اچانک پھر دونوں کا ٹکراؤ اسی رہائشی محلے میں نسلی تفریق کے علمبردار غنڈے سے ہوجاتا ہے۔ اس موڑ پر دونوں ایک بار پھر قریب آتے ہیں۔اس فلم کا بنیادی خیال مسلکی نفرت سے پیدا ہونے والے مسائل پر مبنی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

فلم تعایش کے ہدایت کار مصعب العمری ہیں،اس فلم کا دورانیہ صرف 14 منٹ کا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply