• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے (زکوٰۃ ہر معاشی زوال سے نمٹنے کا واحد حل)۔۔جنید منظور ڈار

پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے (زکوٰۃ ہر معاشی زوال سے نمٹنے کا واحد حل)۔۔جنید منظور ڈار

عصر حاضر میں غریبی اور معاش کا مسئلہ ایک ہمہ گیر شکل میں ہر کس و ناکس کے عقل و شعور پر چھایا ہوا ہے۔خالق کائنات نے سورج کی روشنی ،دریا کاپانی،ہوا،آگ ،مٹی سب کو برابر دی تھی،امیر و غریب کا امتیاز نہ رکھا تھا۔انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے کشاکش  کرنے لگا، پھر کوئی  بڑا بن گیا کوئی  چھوٹا رہ گیا۔کسی نے اتنی دولت پائی  جس کی  حد  نظر نہ آئی  اور کوئی  رات کی روٹی کو ترسا ،اگرچہ رزق کا مینہ گھر گھر برسا۔

یہ حقیقت ہے کہ غریبی انسان کو بعض اوقات کفر تک پہنچا دیتی ہے اور یہ مشاہدہ ہے کہ غریبی کے دباؤ سے متاثر ہوکر انسان اخلاقی قدروں اور اسکے پیمانوں کو بھی بدل ڈالتا ہے اور دین   و مذہب کی اس کی نظر میں کوئی  اہمیت باقی نہیں رہتی۔یہ بھی مشاہدہ ہے کہ غریبی کی وجہ سے آباد گھر ویران ہو جاتا ہے اور انسان تنگ آکر اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔

حال ہی میں میرے گاؤں کے لخت ِ جگر مسمی زبیر احمد کھانڈے ایک غریب باپ کا  بیٹا  ہونے کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،اس میں شک نہیں کہ ایک فاقہ زدہ اور مصیبت کا مارا اپنے وطن سے دفاع کا کو ئی  ولولہ اپنے دل میں موجود نہیں پائے  گا، کیونکہ اس کے وطن کی زمین اس کے لیے نہ غلہ اُگاتی ہے،نہ خوف و ہراس میں اسے امن و سکون دیتی ہے۔

ان سخت ترین حالات میں اُمتِ  مسلمہ کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ افلاس و غربت کے شکنجوں سے انسان کو آزاد کرانے کی پُر زور وکالت کریں۔خصوصی طور ان غریب بیماروں کا سہارا بننے کی سعادت حاصل کریں جو ہسپتالوں اور گھروں میں بیمار پڑے ہیں۔گاؤں گاؤں بیت المال کی داغ بیل ڈال کر عشر و زکوٰة،صدقہ و خیرات جمع کرکے غریبوں،یتیموں،مسکینوں اور فقیروں کا سہارا بنیں ۔روز اوّل سے اسلام سرمایہ داروں سے اپنا حق مانگتا  آرہا ہے،وہ حق کچھ بڑا نہیں ہے ،ایسا نہیں ہے جس کو ہم ادا نہیں کرسکتے ،ہم تو ایسے ہمت والے ہیں کہ دین کے نام پر سر کٹوایا کرتے تھے،آج سر کٹوانے کی پکار نہیں ہے فقط جیب کے چند پیسے دینے کا بلاوا ہے ۔لہذا  خالق کائنات کے لازمی ٹیکس کو بروقت ادا کریں، یہ لازمی ٹیکس (زکوٰۃ) جن مالداروں پر فرض ہے اگر وہ سب کے سب فرمان خدا کے موافق اس فرض کو ادا کریں گے اور خدا کا یہ لازمی ٹیکس ٹھیک اس جگہ خرچ کریں گے   جہاں خدا کے رسول نے حکم دیا ہے تو اتنا روپیہ جمع ہوسکتا ہے جو تمام ہندوستان کی تعلیم کیلئے کافی ہو۔ زکوة کی آمدنی سے تعلیم عالمگیر ہوسکتی ہے اور جب تعلیم عام ہوجائیگی تو مسلمان نماز،روزے ،حج اور کلمہ توحید کو خود ہی سمجھنے لگیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

زکوٰۃ اسلام کا ایسا اچھا انتظامی اصول ہے کہ اگر وہ پوری طرح وصول ہوکر ان تمام کاموں  پر خرچ ہو جن کا خدا نے حکم دیا ہے تو مسلمانوں کی قوم میں کوئی  غریب باقی نہ رہے گا۔پس زکوٰۃ کا ادا کرنا خود ہماری ذات اور قوم کے غریب افراد کی دینی بہتری اور دنیاوی بھلائی کے لیے بہت ضروری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply