چوتھی قسط کا آخری حصہ
یاد رکھیں کسی دین کی عظمت اور فطرت انسانی کے لیے قابل قبول ہونے کا اندازہ اس کے ہاں مروج اللہ کے تصور ذات سے وابستہ ہے۔قرآن کس طرح ہمیں وہ تصور ذات الہی فراہم کرتا ہے جو مغرب کے مشہور ترین افراد بشمول پوپ پال ثانی کے دنیا کا بہترین تصور الہی ہے۔
پانچویں قسط
اس خیال کو آپ کےایمان کا حصہ بن جانا چاہیے کہ عقائد کی دنیا کے بہت بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور میں آپ کا عقیدہ ایمان، زندگی کی Best -Buy ہے۔آپ کا دین اسلام کو قرآن کی روشنی میں اپنانا ایک ایسا شعوری فیصلہ (Conscious Decision) ہے جس پر آپ نے عمل درآمد اس آیت کریمہ کو سن کر کیا ہے جو قرآن العظیم میں بارہا آتی ہے کہ ”اللہ کی بندگی کرو اور رسول کی اطاعت“۔رسول کے بعد ہر ہستی چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو لائق احترام تو ہوسکتی ہے اور عقیدت کا مرکز بھی۔ اس کا آپ کے عقیدے پر کوئی حق نہیں۔ نہ ہی آپ کا عقیدہ کوئی پیدائشی حادثہ (Accident of Birth) ہے۔یہ تو وہ نور ہدایت اور فوز العظیم ہے جو آپ کا اللہ سے وعدہ ہے۔
ایک دلچسپ نکتہ پڑھ لیں۔ اس کی وجہ سے اللہ نے چاہا تو آپ کی قرآن او ر دین سے وابستگی اور بھی آسان ہوجائے گی۔ایک مولانا احمد علی صاحبؒ ہوتے تھے یہ تصدیق نہیں ہو پائی کہ ان کا پورا نام مولانا احمد علی لاہوری تھا اور یہ وہی ہیں جو مولانا عبید اللہ سندھی کے شاگرد اور داماد تھے۔ ان سے یہ بہت کمال کی بات منسوب ہے کہا کرتے تھے:
”ٹرین چلنے کی ہو،میرا ایک پاؤں ٹرین کے پائے دان اور دوسرا پلیٹ فارم پر ہو۔ٹرین چلنے کی سیٹی بج گئی ہو اور کوئی آدمی دوڑتا ہوا آن کر مجھ سے کہے ارے احمد علی ہمیں قرآن تو سمجھاتے جاؤ۔واللہ دوسرا قدم پائے دان پر رکھنے سے پہلے میں اسے قرآن سمجھا چکا ہوں گا۔قرآن میں کل تین باتیں ہیں چوتھا کچھ نہیں۔رب واحد کو راضی کرو بندگی کے ساتھ۔رسول کریم ﷺراضی کرو اطاعت کے ساتھ اوراللہ کی مخلوق راضی کرو خدمت کے ساتھ۔واللہ دین اور قرآن اس سے زیادہ کچھ نہیں“۔
ہم نے ارادہ باندھا ہے کہ دین اسلام آپ پر قرآن کی قربت کے راستوں کو ہموار کرکے آپ کے راستے سے اٹھا کر دل و دماغ کی جیب میں ڈالے ہوئے خوف اور خدشات کے کانٹے اور کنکر ایک طرف کردیں تاکہ آپ کے لیے قرآن خود سے پڑھنا، اسے سمجھنا آسان ہو جائے۔ عمل کرنا توفیق الہی ہے۔توفیق الہی، خلوص نیت اور کوشش سے ملتی ہے۔ نہ ملے تو ولید بن مغیرہ،ہشام بن مغیرہ ابو جہل اور ابولہب کو نہ ملے مل جائے تو قرن کے چرواہے سیدنا اویس کو بن حاضری مل جائے، بلال حبشی کو یوں ملے کہ کعبہ کی چھت سے آذان دینے کی فرمائش رسول اکرمﷺ کی جانب سے ہو۔
ہم آپ کو بتاتے چلیں قرآن اور دین سے آپ کی وابستگی کا سفر دو مرحلوں کا ہے جو بظاہر تو متضاد ہیں مگر یہ وہ راستے ہیں جو منہ پھیر کر بھی جائیں تو گھوم پھر کر ایک ہی بستی کے چوک ہدایت پر مل جاتے ہیں۔
پہلا تو یہ کہ آپ کی دین سے قربت کا عمل ارتقائی ہے۔ہمارے آپ کے بڑے جو بھی دین کے پیروکار رہے۔آدم علیہ سلام سے ہمارے نبی کریمﷺ تک سب انبیا کا دین ایک ہی ہے۔ یہ اللہ کا دین ہے اور اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔یہ بات سورہ آل عمران کی آیت نمبر انیس اور دیگر اور آیات میں بھی کھل کرجتائی گئی۔
اس ایک عظیم ایک دین سے قربت کا حوالہ اس دن جنم لیتا ہے جس دن آپ کو پہلی آیت پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ان مضبوط رشتوں کو سنبھالنے کے لیے آپ کو جس مضبوط بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے، وہ قرآن کا بتایا ہوا تصور الہی ہے۔یہ چھوڑا ہوا دھرم ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ بڑے فیصلے کرنے کے لیے اپنی ڈی این کے حساب سے عادی ہیں۔ قرآن کو سچے دل سے اپنانا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنا بڑا اور بہترین فصیلہ ہے۔






ہم چونکہ گزشتہ قسط میں ہندوؤں کا عقیدہ الوہیت بیان کررہے تھے۔ یہ وہ دین جو ہمارے بزرگوں کی اکثریت کا دھرم تھا۔ ہمارے ہاں بے شمار لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہندو سب ہی کو اپنا بھگوان مانتے ہیں یعنی وہ Polytheist ہیں۔ان کے نزدیک،بندر،سانپ، گائے،درخت، پہاڑ،عورت، مرد سب ہی بھگوان ہیں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ بیکانیر راجھستان کے قریب ایک بستی”دیش۔نوک“میں ”کرنی۔ماتا“ کے مندر میں قریب کالے چوہوں کو پوجا جاتا ہے۔ان چوہوں کو ناچتا،پھدکتا دیکھ کر ہمارے کسی واقف حال نے مذہبی لوگوں پہ طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ مندر کا چوہابھگوان سے سب سے کم ڈرتا ہے۔ایسا ہرگز نہیں۔ایک بہت چھوٹا مگر تصوراتی طور پر ایک بہت عظیم راز اس میں نہاں ہے۔وہ یہ کہ ہندو کہتے ہیں ہر شے میں بھگوان ہے۔ اس حوالے سے اس کا معاملہ Pantheist کا ہے۔ ہندو دھرم مُصر ہے کہ ہمارے اعمال کی روشنی ہمیں دوسرے جنم میں Cause (اسباب یعنی اعمال) سے یعنی(Effect) نتیجے کی طرف بذریعہ Incarnation(آوتار)Reincarnation(آوگون یا تجسم نو ) کی جانب لے جاتی ہے۔اسی کے لیے اس دھرم نے مثال بنارکھی ہے کہ جس طرح بھگوان مختلف اوتار لیتے ہیں ہم انسان بھی اپنے کرموں یعنی اعمالوں کی بنیاد پر نیا جنم لیں گے۔ ایسے جنم کئی بار ہوں گے اور سب کے سب جنم اسی دنیا میں ہوں گے۔ہندو دھرم کے ماننے والے یوم آخرت سے یکسر انکاری ہیں۔جب کہ آخرت ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے۔
ہم مسلمان ضد کرتے ہیں کہ ہر شے کا خالق و مالک بھگوان ہے۔وہ جب سورہ یسین کی آیت نمبر بیاسی کی روشنی میں ”جب وہ کسی شے کی تخلیق کا ارادہ دیتا ہے تو اس کے حکم سے وہ شے وجود میں آجاتی ہے“۔اسے اپنے وجود کے ثبوت کے لیے کسی جسمانی ہیولے کی ضرورت نہیں نہ ہی وہ کسی فطری حوالے آگ چاند، سوج، ستارہ پہاڑ سمندر جیسے کسی تعارف کا محتاج ہے۔ یہ تو اس کی تخلیقات ہیں۔
جنرل نالج سے متعلق آپ کے شعور دینی بہ لحاظ دنیا میں اضافے کے لحاظ سے آپ کو ایک دل چسپ حقیقت سے آشنا کریں۔
پوپ کا عہدہ دنیا کا طاقتور ترین عہدہ ہے۔عیسائیوں کے قدیم ترین فرقے رومن کیتھولک کے پہلے سربراہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں ایک حواری(مددگار شاگرد) پیٹر سائمن ہوا کرتے تھے۔یوں پوپ آج بھی1.3 عیسائیوں کے سربراہ ہیں۔اس ادارے کے پاس ہندوستان میں سرکار کے بعد سے زیادہ زمین اور انڈونیشیا جو ہزاروں چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل دنیا کی تیسری بڑی اسلامی ریاست ہے اس کی فضائیہ سے زیادہ ہوائی جہاز ہیں جو پادریوں کے زیر استعمال ہیں۔دیدات صاحب نے پوپ جان پال ثانی کو کئی دفعہ اسلام اور عیسائیت پر مکالمے کی دعوت دی مگر چونکہ وہ دیدات مرحوم کی بائبل کی نالج اور ان کے پادریوں بالخصوص جمی سوئے گارٹ کا یونی ورسٹی آف لوئی۔ زین۔ یا والا مکالمہ دیکھ چکے تھے۔ سو راضی نہ ہوئے۔دیدات صاحب مذاق میں کہا کرتے تھے کہ اگر پوپ مسلمان ہوجائے تو رومن کیتھولک عیسائیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کلیہ تو دیگر اور فرقوں کے رہنماؤں پر بھی صادق آتا ہے جو اپنے آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر دین میں مختلف فرقوں کی نقب لگائے بیٹھے ہیں۔

پوپ جان پال ثانی کا کچھ بیان ہمیں اور بھی کرلینے دیجیے۔جب سیکولر ازم کے داعی پاکستان میں یہ دعوے کرتے ہیں کہ مغرب میں چرچ اور ریاست ایک دوسرے سے جدا ہوکر بیٹھے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ پولینڈ میں کمیونزم کے خلاف سن 1980 میں جو تحریک چلی تھی۔ اس میں چرچ کا بڑا حصہ تھا۔فلپائن کے صدر مارکوس کے خلاف بھی وہاں چرچ بہت سرگرم تھا۔جب پولینڈ میں مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوااس وقت یہ چرچ کے سربراہ تھے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پوپ پال کی والدہ یہودی تھیں۔یہ بات درست نہ بھی ہو تو ان کی یہودیوں سے ہمدردی سب کے علم میں تھی۔وہ پہلے غیر اطالوی پوپ بنے تھے۔پوپ کا انتخاب خفیہ ووٹ کے ذریعے ایک کالج آف کارڈینل کرتا ہے۔اس میں دنیا بھر کے رومن کیتھولک چرچ کے ڈھائی سو سے اوپر سربراہان ہوتے ہیں۔مسلمانوں کو درپیش دنیاوی خطرات کے پیش نظریہ بتانا لازم ہے کہ ان کی وجہ سے صیہونی اور عیسائی ایک دوسرے کے کتنے قریب آگئے ہیں۔

پوپ کا جاری کردہ فرمان جسے انگریزی زبان میں The Bull کہتے ہیں وہ حرف آخر مانا جاتا ہے۔جب وہ پوپ بنے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اسرائیل کو اس چھوٹی سی ریاست وٹیکن نے پہلی بار شناخت کیا۔چھ سو برس میں پہلی دفعہ یہودیوں کو وٹیکن میں آنے کی اجازت دی گئی۔اس فرمان کے ذریعے عیسائیوں نے یہودیوں پر اس جرم کی معافی دی جن کا وہ ان پر الزام لگاتے تھے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ سلام کو ان کے عقیدے کی روشنی میں مصلوب کرنے کی سازش یہودیوں نے تیار کی تھی۔
پوپ جان پال ثانی کی کتاب کا شمار دنیا کی بیسٹ سیلر کتابوں میں ہوتا ہے۔پہلے ہفتے میں اس کی سولہ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں تھی۔اس کتاب یعنیCrossing the threshold of hope (امید کے چوارہے سے چند قدم آگے) کے صفحہ نمبر 92 پر درج ہے کہ ”انسانی زبان نے اب تک رب کائنات کے لیے جو بھی اسماء الحسنی تراشے ہیں ان میں قرآن سے بہتر کسی اور کتاب میں دکھائی نہیں دیتے۔“
اس کا سب سے پہلا ثبوت تو سورہ الحشر کی آیات مبارکہ جو بائیس تا چوبیس نمبر پر موجود ہیں چھوٹی سی ان آیات مبارکہ میں چودہ اسمائے الحسنی موجود ہیں۔ وہ نام جن کا اعتراف پوپ پال ثانی نے بھی کیا کہ یہ انسانی زبان کے بہترین نام ہیں۔قرآن میں ایسے کل ننانوے نام ہیں۔جن میں سمیع، بصیر، حئی، قیوم،باسط، لطیف، خبیر ودود جیسے اسمائے اعلی جو تمام کے تما م اس کی ان صفات کے مظہر ہیں جن
کا معمولی سا فہم و ادراک اللہ نے اپنے بندوں کو عطا کررکھاہے۔ورنہ تو سورہ لقمان کی آیت نمبر ستائیس میں درج ہیں کہ
”اگر تمام پیڑ قلم اور سمندر روشنائی بن جائیں اور ان میں سات مزید سمندر اور بھی شامل کردیے جائیں تب بھی تیرے رب کی عظمت کا بیان مکمل نہیں ہوگا۔ یہ رب تو بہت قدرت اور حکمت والا ہے“۔
آپ بائبل کو اٹھالیں۔عیسائی مبلغین قرآن العظیم پر یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ ان کے منہ میں خاک “یہ کتاب محمد کی تصنیف کردہ ہے”۔ان کی اپنی کتاب بائبل پر انہیں اعتراض اس لیے نہیں کہ ان کی کتاب کے 66 ابواب 40 مصنفین نے لکھے ہیں۔ان ابواب میں اللہ کے لیے استعمال ہونے والے کل پانچ نام موجود ہیں کرائسٹ، بیٹا، لارڈ، ماسٹر، فادر۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ بائبل اور اس سے پہلے تورات بطور مقدس کتب موجود تھیں۔ان میں یہ نام استعمال ہوئے ہیں۔یہ ایک آشنا سلسلہء اسماء تھا۔ قرآن چاہتا تو اپنی دعوت دین کے اہتمام میں یہ نام بھی استعمال کرلیتا بالخصوص فرزند خداوند کے حوالے سے ابّنا یا فادر۔ یہ نام ان عیسائیوں کو بہت مرغوب ہے۔اس نام سے چونکہ انسانی نسب کا حوالہ جڑا ہوا ہے یعنی Begotten Son(نسبی بیٹا) لہذا قرآن نے اسے اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔
ہمارے لیے ہمارا تصور الہی قرآن نے سورہ الاخلاص میں بتادیا ہے۔جس میں اسے بات کو کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا کہ انسانی جسم کے حوالے سے پیدائش اور رشتوں کے جو حوالے ہیں اللہ ان سے بہت برتر اور اعلیٰ ہے۔وہ ہر قسم کی ضروریات سے بے نیار اور کائنات میں یکتا اور بے مثال ہے۔
اگلی قسط میں ہم بیان کریں گے کہ اللہ کی یہ کتاب، روایتی کتب سے کیوں کر مختلف ہے۔
جاری ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں