31 رمضان المبارک 1441ھ۔۔حافظ صفوان محمد

میری رائے میں کسی کا انفرادی طور پر چاند نظر آنے نہ آنے کی گواہیاں جمع کرنا قبائلی نظام میں درست ہوسکتا ہے، آج کی حکومتوں میں ایسا کرنا کارِ سرکار میں مداخلت ہے۔ ایسا کرنے والوں سے مجھے کوئی غرض نہیں اور نہ میں نے پچھلا پورا سال کسی ایسے شخص کا ذکر تک کیا ہے۔

مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں 2002 یا 2003 میں رکھا گیا تھا جس میں مجھے ارکان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔ مجھے ڈیڑھ دن پشاور میں رہنے اور عام شہریوں کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص مسجد کے نمازیوں سے ملنے جلنے سے اسی وقت سے واضح ہوچکا ہے کہ چاند دیکھنے کی شہادتیں کس طرح وضع (Fabricate) کی جاتی ہیں۔ وہاں وہ لوگ بھی چاند دیکھ لینے کی گواہی دے رہے تھے جو ضعف کی وجہ سے سہارا لے کر اٹھ رہے تھے۔ آپ چاہیں تو لوگوں سے سفید دوپہر کڑکتی دھوپ میں چاند دیکھ لینے کی گواہی لے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ چاند دیکھنا مذہبی نہیں سائنسی مسئلہ ہے۔ چاند مسلم غیر مسلم سب دیکھ سکتے ہیں اور اس کی گواہی کے لیے مذہب شرط نہیں ہے کیونکہ جمِ غفیر میں سب شامل ہوتے ہیں۔

میں نے 4 جون 2019 کے حکومتِ خیبر پختونخوا کے عید الفطر کے اعلان کے بعد سے روزانہ کی تاریخ کی پوسٹ لگانا شروع کی۔ آج 23 مئی 2020 تک 8 یا 9 دن کا فرق آچکا ہے۔ غضب خدا کا، چاند کے مہینوں کی 31 اور 32 تک تاریخیں نظر آ رہی ہیں۔ الحمدللہ اس سال پشاور میں رمضان 31 دن کا ہوچکا ہے۔

یوں سب پر واضح ہوچکا ہے کہ چاند دیکھنا صرف لوگوں کو مصروف (Engage) رکھنے کے لیے ہے، حقیقت میں اس ساری مشقت کی اوقات ایک دھیلے کی بھی نہیں ہے۔ مقتدرہ نے بندر ناچ دکھانے کے لیے بندر پالے ہوئے ہیں جن کو میڈیا تک رسائی اسی لیے دی جاتی ہے کہ میڈیا ہائپ بناکر بعض معاملات کی طرف سے عوامی توجہ ہٹائی جاسکے۔ پالیسیاں بنانے والے لوگ اس بیکار کام میں لوگوں کو لگائے رکھنے کے لیے لمبی چوڑی پلاننگ کرتے ہیں اور اس پر ٹھیک ٹھاک انویسٹمنٹ کی جاتی ہے۔ بحمداللہ یہ بات اس صدی کے آغاز سے بیشتر عوام پر واضح ہوچکی ہے۔ جسے ابھی سمجھ نہیں آئی اسے آتے آتے آجائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ سالہا سال سے وہ قمری کیلنڈر درست ریڈنگ دے رہا ہے جو ڈاکٹر الیاس اور ڈاکٹر مظہر محمود قریشی نے بنایا تھا۔ ڈاکٹر قریشی بتایا کرتے تھے کہ فلاں فلاں سال سکون سے گزرے گا یعنی ایک عید ہوگی اور فلاں فلاں سال دو دو چاند دیکھنے پر جھگڑا ہوگا۔

دنیا کو دو میں سے ایک فیصلہ کرنا ہے، کہ چاند کے نظر آنے پر دن کا آغاز کرنا ہے یا چاند کی پیدائش پر۔ قرآن کا نزول اور حدیثی لٹریچر کی وضع اس وقت ہوئی تھی جب کائنات کا تصور صرف یہ تھا کہ آسمان ایک چھت ہے جس پر سورج چاند تارے لٹکے ہوئے ہیں۔ آج کے انسان کو چاہیے یہ اس قدیم تصورِ کائنات سے جڑے معتقدات کو چھوڑ دے اور ان آیات پر عمل کرے جن میں دنوں اور راتوں کی پیدائش میں نشانیاں ہونے کا بیان ہے۔ چنانچہ قرآن سے جڑ جانا ہی آخری حل ہے، جلد ہو یا بدیر۔ جب سیاہ اور سفید دھاریوں والی قرآنی آیت کو حدیث کے ذریعے استعارہ بتایا گیا ہے تو استعارے والی اس بات کو روایت باللفظ پر بھی پھیلا لینے میں کیا اشکال ہے؟ القصہ جس دن چاند کی پیدائش پر دن کا آغاز کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا اس کے بعد سے یہ جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم شیطان دشمن ہے۔ چونکہ کروڑوں مسلمانوں کا روزی روٹی کا سلسلہ اس جھگڑے کو زندہ رکھنے سے مربوط ہے نیز مقتدرہ کی منشا بھی یہی ہے، اس لیے یہ ہمیشہ موجود رہے گا۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply