دنیا اب زمین سے مریخ کی طرف سفر شروع کرنے کو ہے, آنے والا وقت انسان کے پاس موجود علم کی ایسی بلندیوں کو چھونے والا ہے کہ جس کے بارے میں شاید 50 سال پہلے بھی سوچنا ممکن نہیں تھا۔ اس تیز رفتار ترین ترقی کے دور میں سائنس کا علم اقوام کی ترقی اور لیڈر شپ کی بنیادی ضرورت بن جائے گا۔ افراد کے مذہبی عقائد اور نظریات کہیں پیچھے رہ جائیں گے جبکہ لوگ ایک دوسرے کے مختلف عقائد کو برداشت کرنا بھی سیکھ لیں گے اور دوسروں کے مقدسات کی توہین کرنے سے بھی گریز کیا کریں گے کیونکہ اس تیز رفتار زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں بچے گا کہ وہ دوسروں کے ساتھ اپنے مختلف اور الگ عقائد و نظریات پر سیخ و پا ہوسکیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا وطن عزیز میں اس سماجی شعور کا پھیلاؤ ہو سکے گا؟۔ اپنا جواب دینے سے پہلے معاشرتی سائنسدانوں کی طرف سے عرق ریز تحقیقات اور کئی سالوں کی محنت سے حاصل کردہ نتیجہ جان لیجیے کہ بین المذاہب ہم آہنگی وقت کی اشد ترین ضرورت ہے اور اس سے گریز کرنے کا مقصد وطن عزیز کی سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہو گا۔
دین اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا سے ظاہری رحلت کے بعد سے ہی ان کے پیروکار 2 واضح گروپوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور آج 1430 سے زیادہ سال گزرنے کے بعد یہ خلیج کم نہیں ہوئی بلکہ پاکستان میں تو شدید سے شدید ترین ہوتی جا رہی ہے۔ جان لیوا اختلافات کی اس گہری خلیج کو پاٹنے کے لئے ہر فرقہ کے عمائدین اور پیروکاروں کو یہ اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے عقائد اور نظریات کو دوسرے فرقہ سے تسلیم نہیں کروا سکتے کیونکہ اگر دوسرا فرقہ بھی ہمارے عقائد اور نظریات کو اپنے عقائد و نظریات کہنے لگے گا تو وہ الگ سے فرقہ کیوں کہلوائے گا؟۔ دوسرے ہم سے مختلف عقیدہ اور نظریہ رکھتے ہیں تو اس لئے ہی الگ ہیں۔ اور دوسروں کو بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے مقدسات کا احترام نہیں کرتے تو کم از کم ان کی توہین کر کے ہماری دل آزاری نہ کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے حوالہ سے اہل تشیع مختلف رائے رکھتے ہیں۔ اہل تسنن کے مختلف فرقے البتہ اس حوالہ سے یکجا ہیں۔ ہمیں یہاں یہ ماننا پڑے گا کہ اہل تشیع سے اگر 1430 سے زیادہ سالوں بعد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی پر اہل تسنن کے مؤقف کو نہیں منوایا جا سکا تو آئندہ بھی یہ ممکن نہیں ہو گا۔ دوسری طرف اہل تشیع کو اپنے مذہبی راہنماؤں آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے فتاوی جات پر عمل کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے معاملہ پر اکابر صحابہ کرام حضرت ابوبکر رض، حضرت عمر رض، حضرت عثمان رض اور امہات المومنین کی توہین کو حرام سمجھنا ہو گا۔ اگر اہل تشیع اور اہل تسنن اپنی اپنی طرف عائد ذمہ داریوں میں صرف اس ایک نقطہ پر متفق ہو جائیں تو پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی بڑھانے کو بہت شاندار کامیابی حاصل ہو گی۔
ماضی میں بھی برصغیر پاک و ہند میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ مغل بادشاہ اکبر نے تو مختلف راجاؤں کے خاندانوں میں شادیاں کر کے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کی سعی کی مگر چونکہ یہ طریقہ غیر فطری تھا اس لئے ناکامی سے دوچار ہوا، اسی طرح بھارت میں ’’رام اور رحیم‘‘ کے فلسفہ کو بھی کامیابی نہ مل سکی اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں کوششوں کا حقیقت پسندانہ اپروچ سے دور کابھی واسطہ نہ تھا۔ اس کے مقابلہ میں مذہبی طبقات میں ڈائیلاگ کا دروازہ کھولنے کے لئے اسلام کا فلسفہ نہایت حقیقت پسندانہ ہے۔ اسلام نظریاتی اختلاف کو قبول کرتا ہے۔ برداشت، احترام اور محبت کی پالیسی کو تبھی تشکیل دیا جاسکتا ہے جب آپ دوسرے کے نظریات کو احترام دے کر اختلاف کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اچھے معاشرے کی تشکیل کے لئے اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پر امن معاشرے کی تشکیل کے لئے تضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے، اختلافات کو سمجھنے کے بعد ہی دوسرے عقائد اور مذاہب کا احترام جنم لیتا ہے اور اس طرح ہی مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہے۔
اسلام نے اس حوالے سے جو نہایت اہم اصول وضع کیا ہے، اس میں مذاہب کی بجائے مذہبی افراد کے مابین Harmony کی ضرورت ہے کیونکہ مذاہب کے درمیان فرق کو ختم نہیں کی جا سکتا۔ اسلام کے دیئے ہوئے اس زریں اصول کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ ہر مذہب کے پیروکاروں کے اپنے عقائد ہیں اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کے مذہب یا عقائد کے حوالے سے زبان کھولے۔ اختلافات کو سمجھ کر مذاہب کے مشترکات کو جمع کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ آج تعلیم، اٹانومی، مذہبی و روحانی اخلاقیات، مذہبی اور سماجی خدمات، گلوبل آؤٹ لک، ماحولیاتی تبدیلیوں، سوشل سکیورٹی، سائنس و ٹیکنالوجی، شخصی آزادی، ملٹی کلچرل ازم اور امن کے قیام جیسی درجنوں مشترکات پر مل کر کام کیا جانا چاہیے۔
اسلام کے انہی اصولوں کے حوالہ سے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لکھا ہے کہ ’’اسلام نے حیرت انگیز کامیابیاں اس لئے حاصل کیں کہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے اسلامی دور حکومت میں مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزاری۔‘‘ مسلمانوں نے اسی کلچر کو پروان چڑھا کر مثالی ریاستیں قائم کیں مگر افسوس کچھ عرصہ سے پاکستان میں بھی ایسے واقعات ہونا شروع ہوگئے ہیں جو صرف ہمارے پڑوسی ملک میں ہوتے ہیں اور وہاں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں گوجرہ اور سیالکوٹ جیسے واقعات کو ابتدائی سطح پر ہی مکالمہ کے ذریعے روکنا ہو گا۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑے گا کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ ناروا سلوک شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کیونکہ ڈائیلاگ کے عمل کو چھوڑ کر انتہا پسندانہ اپروچ کے ساتھ پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں حالانکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسے منفی رویوں کی اجازت نہیں دیتا۔ عالمی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مختلف مسالک اور مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے معاشروں میں برداشت محبت امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کیلئے ایک ہونا ہوگا اور آپس میں ڈائیلاگ کے دروازے کو ہمیشہ کھلا رکھنا ہوگا۔ ڈائیلاگ کا یہ عمل اپنے ارتقائی عمل سے گزر کر انسانیت کو اس شاہراہ تک لے جائے گا جہاں سے محبت، برداشت، تحمل، بردباری اور امن و سلامتی کے دائمی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
تمام پاکستان میں بھی اسی اپروچ سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے رہنمائی لینا ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسیحوں اور یہودیوں سے مکالمہ فرمایا اور مدینہ کی ایسی ریاست تشکیل دی جس میں تین مرکزی مذاہب کے لوگ آباد تھے اور وہاں امن و سلامتی اور باہمی احترام غالب تھا۔ برداشت اور احترام کا رویہ اسلام کی تعلیمات کا جزو لا ینفک ہے۔ اسلام کی کامیابی کی بنیادی وجہ مکالمہ تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی کوششوں سے عبارت ہے۔ تمام اہل وطن سے گزارش ہے کہ اپنی سوچ کو وسیع کیجیے۔ یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ دوسرے ہمارے عقائد اور نظریات سے مختلف سوچتے ہیں، اسی لئے ہم سے الگ ہیں۔ ہمیں صرف یہ کوشش کرنی چاے کہ ان کے مختلف عقائد اور نظریات کو سمجھیں۔ نیز ان کے مقدسات کا اگر احترام نہیں کرتے تو کم از کم ان کی سرعام توہین سے مکمل گریز کریں کیونکہ یہی قرین عقل راستہ ہے یا پھر دوسروں کے لئے بھی اپنے مقدسات کی توہین کا حق بھی تسلیم کیجیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں