شبِ قدر کی فضیلت۔۔ہارون رشید

رمضان المبارک کی راتوں میں ایک رات کو ’’شبِ قدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس رات کو ایک ہزار راتوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ خوش نصیب شخص وہ ہے، جس کو اس رات میں عبادت نصیب ہوجائے۔ جو یہ ایک رات عبادت میں گزارے، وہ ایسا ہے گویا کہ اس نے 83 سال اور 4 ماہ عبادت میں گزارے ہوں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کے نیت سے عبادت کرے، تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (متفق علیہ)
یعنی اس رات میں نماز ادا کرے، تلاوت کرے، ذکر و اذکار میں مشغول رہے، تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوں گے۔
حضرت انس ؓ کی روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ تمہارے اوپر رمضان کا مہینہ آیا ہے۔ اس میں ایک رات شبِ قدر کی ہے، جو اس رات کی خیر و برکت سے محروم رہا، وہ سب خیر سے محروم رہا۔
حقیقت میں اس شخص کے محروم ہونے میں کیا شک ہے کہ اتنا بڑا موقع ضائع کر دے۔ دنیا کے کام کاج کے لیے ہم راتوں رات جاگتے ہیں۔ اگر ایک ہزار سال سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے صرف ایک رات جاگ جائیں، تو کچھ بھی نہ ہوگا۔
حضرت عائشہؓ حضورؐ سے نقل کرتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا کہ شب قدر رمضان المبارک کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اکیس، بائیس، تیئس، پچیس، ستائیس اور اُنتیس۔
ایک روایت میں ہے کہ اس رات کی علامات میں سے یہ ہے کہ یہ رات نہ زیادہ گرم ہوگی اور نہ زیادہ سرد، صاف ستھرا اور کشادہ ہوگی۔ اس رات میں جب سورج طلوع ہوگا، تو بغیر شعاعوں کے طلوع ہوگا۔ اس رات میں دُعا کے ساتھ ساتھ مختلف عبادات جمع کرنے چاہئیں۔ مثلاً تلاوت، نماز، دعا، ذکر و اذکار وغیرہ۔ اگر کسی کو اس رات میں عبادت کرنا نصیب ہوجائے، تو یہ دعا ضرور پڑھے: ’’اے اللہ تو بخشنے والا ہے اور معاف کرنا پسند کرنے والا ہے۔ بس مجھے معاف فر مادے۔‘‘
اگر کوئی شخص درجہ بالا طاق راتیں عبادت میں گزارے، تو اس میں ایک رات ضرور شب قدر کی ہوگی اور یہ ساری فضیلتیں اس کو حاصل ہوں گی۔ باقی راتوں کا ثواب بھی اسے مل جائے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، آمین!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply