شب قدر کی فضیلت و اہمیت۔۔ڈاکٹر طاہر القادری

رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالی نے کیونکہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اور ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں ،اس لئے ” خیر من الف شھر‘ ‘کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زیادہ اجر عطا فرمانا چاہے گا عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔
شب قدر کا معنی و مفہوم:امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبہ کے ہیں چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے اس لئے اسے ” لیلة القدر“ کہا جاتا ہے۔(تفسیر القرطبی )
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللہ تعالی کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے اس وجہ سے یہ لیلة القدر کہلاتی ہے۔(تفسیر القرطبی)
اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے:اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی یہی وجہ ہے کہ اس سور میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر )
قدر کے معنی تنگی کے بھی ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (تفسیر الخازن )
یہ رات کیوں عطا ہوئی؟اس کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرم کی اس امت پر شفقت اور آپ کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ:جب رسول پاک کو سابقہ امتوں میںلوگوں کی طویل عمروں بارے آگاہ فرمایا گیا تو آپ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپ نے بارگاہ اقدس میں اپنی امت کیلئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا فرمائی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم رہ جائیں گے تو اس پر اللہ تعالی نے شب قدر عنایت فرمائی۔(تفسیر الخازن )
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اللہ تعالیٰ نے یہ کرم فرمایا کہ اس امت کو لیلة القدر عنایت فرما دی اور اس کی عبادت کو اسی نہیں بلکہ 83 سال چار ماہ سے بڑھ کر قرار دیا۔ لیلة القدر فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔(الدر المنثور )
مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں عابد اسے قرار دیا جاتا تھا جو ہزار ماہ تک اللہ تعالی کی عبادت کرتا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں اس امت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ ایک رات کی عبادت سے اس سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔
فضیلتِ شب قدر:احادیث کی روشنی میں سیدنا ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:جس شخص نے شب قدر میں اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری)
اس ارشاد نبوی میں جہاں لیلة القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر عبادت وا طاعت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالی کی خوشنودی مقصود ہو ریاکاری یا بدنیتی نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژِدئہ مغفرت بن کر آتی ہے۔
سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاک نے فرمایا:یہ جو ماہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ِخیر وبرکت ہو۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب الصیام)
ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتاہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر بسر کر لیتا ہے تو اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لئے دس راتیں کیوں نہیں جاگ سکتا۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا نے لیلة القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے کسی بھی حال میں اللہ کو یاد کر رہا ہو۔(شعب الایمان)
اتنی اہم اور بابرکت رات کے مخفی ہونے کی متعدد حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم ،جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا۔
اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا ذوقِ عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔
اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس کے صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔
اللہ تعالی کو چونکہ اپنے بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے اس لئے رات تعین نہ فرمائی تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزریں۔
عدمِ تعین کی وجہ سے گنہگاروں پر شفقت بھی ہے کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلة القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔
(التفسیر الکبیر28:32 )
علاوہ ازیں ایک نہایت اہم وجہ اس کے مخفی کر دینے کی جھگڑا بھی ہے حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی حدیث میں موجود ہے :ایک مرتبہ رسالت مآب شب قدر کے تعین کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے لیکن راستہ میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضور نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے اس کاتعین اٹھا لیا گیا۔(صحیح البخاری : کتاب الصیام )
شب قدر کے تعین کے بارے میں تقریبا پچاس اقوال ہیں ان میں سے دو اقوال نہایت ہی قابل توجہ ہیں۔
1۔رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسالت مآب نے فرمایا:لیلة القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔(صحیح البخاری : کتاب الصیام)
چونکہ اعتکاف کا مقصد بھی تلاشِ لیلة القدر ہے اس لئے ان آخری ایام کا اعتکاف سنت قرار دیا گیا۔ نبی اکرم کو جب تک اللہ تعالی نے اس شب قدر کی تعین سے آگاہ نہیں فرمایا تھا آپ اس کی تلاش کے لئے پورا رمضان اعتکاف کرتے تھے لیکن جب آگاہ فرما دیا گیا تو وصال تک صرف آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے رہے۔
2۔ رمضان المبارک کی ستائسویں شب شبِ قدر ہے۔ جمہور علما اسلام کی یہی رائے ہے۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:علما کا شب قدر کی تعین کے بارے میں اختلاف ہے لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ لیلة القدر ستائیسویں شب ہے۔(تفسیرالقرطبی)
علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:علما کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ طاق راتوں میں سے ستائیسویں ہے۔(روح المعانی )
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کی بھی یہی رائے ہے کہ رسالت مآب نے جو اس کی علامت بیان فرمائی ہے وہ اسی رات میں پائی جاتی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ ستائیسویں کو شب قدر قرار دیتے ہوئے تین دلیلیں بیان کیا کرتے تھے۔ جس کو امام رازی نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔
1۔لفظ لیلة القدر کے9 حروف ہیں اور اس کا تذکرہ تین دفعہ ہوا ہے اور مجموعہ 27 ہو گا۔(تفسیر کبیر )
2۔سور القدر کے کل30 الفاظ ہیں‘ جن کے ذریعے شب قدر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے لیکن اس سورةمیں جس لفظ کے ساتھ اس رات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ’ ہی‘ ضمیر ہے اور یہ لفظ اس سورة کا ستائیسواں لفظ ہے۔سورة کے کل کلمات تیس ہیں(اور ان) میںھی ستائیسواں کلمہ ہے۔
سیدنا فاروق اعظمؓ نے حضرت ابن عباسؓ سے شب قدر کے تعین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:اللہ تعالی کو طاق عدد پسند ہے اور طاق عددوں میں سے بھی سات کے عدد کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی کائنات کی تخلیق میں سات کے عدد کو نمایاں کیا ہے مثلاً سات آسمان سات زمین ہفتہ کے دن سات طواف کے چکر سات وغیرہ۔(تفسیر کبیر)
شب قدر کا وظیفہ:حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسالت مآب سے عرض کیا کہ شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہئے تو آپ نے ان الفاظ کی تلقین فرمائی:اے اللہ تو معاف کر دینے والا اور معافی کو پسند فرمانے والا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے۔(مسند احمد بن حنبل)مہما

 

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply