تقدیر ، عذاب اور مہلت۔۔ ڈاکٹر اظہر وحید

یادش بخیر! میڈیکل کالج کے زمانے میں ایک ہم جماعت ڈاکٹر عامر سلیمان، کہ ہم فکر بھی تھا، شعلہ بیان مقرراور بیک وقت شاعر اور ادیب ۔۔ آج کل امریکہ میں “اردو گھر” کے نام سے ایک ادبی تنظیم کا روحِ رواں ہے، ہمت ہے،امریکی ماحول میں اَدب کی شمع جلائے بیٹھا ہے، اُس کا سنایا ہوا ایک لطیفہ مجھے ابھی تک یاد ہے، ذہین آدمی کے لطیفے میں لطائف چھپے ہوتے ہیں۔ ایک آدمی تھا، جو تقدیر کو نہیں مانتا تھا، اُسے قائل کرنے کیلئے اُس کے ساتھی نے کہا،فرض کرو،ایک شخص اپنے گھر کی چھت سے گر جاتا ہے, اِسے کیا کہو گے؟ وہ کہنے لگا  اسے حادثہ کہیں گے۔ فرض کرو,وہ دوبارہ گر جاتا ہے۔ کہنے لگا،پھر یہ اُس کی غلطی ہے۔ اگر وہ تیسری بار بھی اُسی چھت سے گر جائے تو؟ وہ منکرِ تقدیر بولا، پھر یہ اُس کی عادت ہے۔

یہ عادت دراصل ہماری عادتِ فکر ہوتی ہے۔ اسی عادتِ فکر سے مجبور ہو کر ہم انکار اور پھر مسلسل انکار کے ایمفی تھیڑ میں ایک تماشا  لگائے رکھتے ہیں۔ اپنے فکری ورثے سے بغاوت کرنا جدتِ فکر سمجھا جاتا ہے۔ یعنی یہ طے ہے کہ ماضی سے ورثے میں ملی دانائی کی مالا کے سب منکے توڑ کر ہم نے ایک نئی ڈسپوزیبل اور برانڈڈ قسم کی دانشوری سے اپنا حصہ وصول کرنا ہے۔

پوسٹ کرونائی ماحول میں عجب طرز کے فکری چورن بیچے جا رہے ہیں، روائتی مُلا اور روائتی ملحد دونوں کی دکانیں خسارے میں چل رہی ہیں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنا سودا کیسے بیچیں، کسے بیچیں ، دونوں کے لگے بندھے گاہک اپنے گھر کی راہ لے چکے ہیں۔

باطنی نظام سے بے فکر، اور ظاہری دنیا کی فکری چکاچوند سے خیرہ ذہن ہر واقعے کی حتمی وجہ اِسی اسباب کے جہاں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی فکر میں ایثار، احسان، توکل ، قناعت اور صبر جیسے مظاہر انسانی محض کچھ مزاجوں کی افتادِ طبع قرار پاتے ہیں۔ اس کے برعکس لالچ ، حسد ، غصہ ، کینہ ، چوری اور سینہ زوری عین فطری جبلتیں سمجھ لی جاتی ہیں۔

اس نظامِ ظاہر کے ساتھ ساتھ ایک اور نظام بھی چل رہا ہے، جسے باطنی نظام کہتے ہیں۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہونے والے واقعات محض سبب اور نتیجے کی سائنس ہی کا کرشمہ نہیں بلکہ حتمی نتیجے کا فیصلہ سبب اور نتیجے سے ماورا ایک باطنی نظام کے تحت جاری ہوتا ہے۔ ظاہری نظام کی طرح باطنی نظام کا ایک طے شدہ آئین اور قانون موجود ہے،جس کے تحت جزا اور سزا کے فیصلے ہوتے ہیں۔ سبب اور نتیجے کی دنیا میں کامیاب نظر آنے والا شخص عین ممکن ہے باطنی نظام میں ناکام قرار پائے ،اور اس کے برعکس واقعہ اور نتیجہ بھی عین درست ہے ۔جسے انگریزی میں VICE VERSA کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ہمارا ورثہ ہے۔

باطنی نظامِ فکر سے بے فکر شخص کے تصورات کی دنیا میں عذاب، ثواب ، نیکی اور گناہ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے اگر گزشتہ قوموں پر عذاب کا واقعہ بیان کیا جائے تو وہ اسے کوئی قدرتی حادثہ سمجھ کر گزر جائے گا، اس لیے عبرت کا لفظ بھی اس کیلئے متروک الفاظ کی فہرست میں ہوتا ہے۔ وہ گزشتہ قوموں پر عذاب کے واقعات کے تذکرے کو اساطیری داستانیں سمجھے گا۔۔۔ بقول قرآن اساطیر الاولین کہہ کر گزر جائیگا۔

باطنی نظام کی موجودگی کا تصور انسان کو تصورِ خدا سے آشنا کرتا ہے، اس لئے لامحالہ اِس دنیا کو صرف ایک آنکھ سے دیکھنے والا ظاہر پرست ایک شخصی خدا کے تصور سےبھی محروم ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ کائنات ایک حادثہ ہے، لیکن اس حادثے کے نتیجے میں اس قدر حادثاتی حسن کے پیدا ہوجانے کی توجیہ پیش کرنے سے وہ قاصر رہتا ہے۔ شاید اس کے نزدیک حسن کی خوگر آنکھ کیلئے حسن کی تلاش بھی ایک جبلی مجبوری ہے۔ زمانہ طالبعلمی ہی میں شائع ہونے والی میری کتاب “پہلی کرن” کا ایک جملہ عامر سلیمان کو بہت پسند تھا۔ “میرے دوست! میں ضرور دہریہ بن جاتا اگر کوئی مجھے یہ سمجھا دیتا کہ اس کائنات کی لاشمار قوتوں نے آپس میں یہ کیسے سمجھوتا کر لیا کہ وہ حسن ہی پیدا کریں گی”۔

اہلِ باطن بتاتے ہیں کہ باطن میں جزا سزا کا ایسا مکمل اور فول پروف نظام موجود ہے جیسے عالمِ ظاہر میں کسی حکومت کے نظام میں موجود ہوتا ہے۔ عالمِ ظاہر میں کسی قانون کی خلاف ورزی جرم کہلاتی ہے اور عالمِ باطن میں کسی باطنی قانون کی خلاف ورزی کو گناہ کہتے ہیں۔ جرم کی سزا اِس ملک کی حکومت دیتی ہے، گناہ کی سزا مالک الملک دیتا ہے۔ گناہ کی سزا کا دینی نام عذاب ہے۔ یہ عذاب انفرادی بھی ہو سکتا ہے اور اجتماعی بھی۔ مجموعی طور پر عافیت سے نکل کر آفت میں مبتلا ہونا ایک عذاب کہلائے گا۔ یہ بحث الگ رہی کہ یہ سزا ہے یا آزمائش۔ عذاب اور آزمائش میں کیا فرق ہے،اس پر لکھا جا چکا ہے۔

یہاں مختصراً یہ دہرا دینا کافی ہے کہ ماننے والے اگر رجوع کرلیں تو یہ آفت عذاب نہیں بلکہ آزمائش کہلائے گی، جبکہ مزید بغاوت پر اُتر آنے والوں کیلئے یہی ایک عذابِ شدید ہے۔ ماننے والے بھی آفت سے گزرتے ہیں لیکن وہ اپنے نظامِ اطاعت کے تحت اس آفت کو آزمائش میں موڑ لیتے ہیں۔۔ اور آزمائش کیا ہے ؟

آزمائش خدا کا اپنے بندے کو انعام عطا کرنے کے ایک جواز کا نام ہے۔ باطنی نظامِ فکر سے تمسک رکھنے والا کسی بھی آفت کو اِسی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ ہو نہ ہو، یہ اُس کے گناہوں کی سزا ہو۔ وہ دوسروں پر فتویٰ نہیں لگاتا،بلکہ دوسروں کو جب وہ کسی آفت میں مبتلا دیکھتا ہے،تو اِسے سب سے پہلے ایک آزمائش تصور کرتا ہے، لیکن خود کوخود احتسابی کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے اورجب کسی،اِبتلا میں گھرتا ہے تو سب سے پہلے اِسے اپنے گناہوں کا شاخسانہ تصور کرتے ہوئے توبہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔۔ یعنی اپنے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے۔۔۔۔ پلٹ آتا ہے۔

اِس دنیا میں کسی جگہ قانون شکنی کا بازار گرم ہو، کوئی گروہ اجتماعی لوٹ مار کر رہا ہو اور ان کی اس حرکت پر قانون کے محافظ حرکت میں آ جائیںٗ،تو ملکی قانون جاننے والے کہیں گے کہ اِنہیں اپنے جرم کی سزا مل رہی ہے، لیکن قوانین سے جاہل لوگ اسے محض اتفاق سمجھیں گے، وہ اسے قانون کی طرف سے ملنے والی سزا تصور کرنے کی بجائے یہی بحث کریں گے کہ فلاں اور فلاں جگہ بھی تو یہی جرم سرزد ہو رہا ہے، اگر یہ قانون کی خلاف ورزی کی سزا ہے تو فلاں شخص اور فلاں علاقہ کیوں محفوظ ہے۔ اسی طرح اگر اسی جگہ پر وہی جرم دوبارہ شروع ہو جائے تو ظاہر پرست لوگ  قانون کا علم رکھنے والوں کو پھر یہی طعنہ دیں گے، کہ اگر یہ کوئی جرم ہوتا اور اس کی کوئی سزا مقرر ہے تو پھر یہاں پر دوبارہ وہی جرم کیسے شروع ہو گیا۔ جب سرکش گروہوں کی بستی کے گرد گھیرا ڈال کر پکڑ دھکڑ ہوتی ہے تو اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔

آج کے دور میں جسے کولیٹرل ڈیمیج collateral damage کہتے ہیں، معصوم لوگوں کے اس اضافی نقصان پر تبصرہ کرتے ہوئے پھر یہی نکتہ زیرِ بحث آتا ہے کہ اگر قانو ن نام کی کوئی چیز ہوتی تو یہ لوگ کیوں اس افتاد کے گھیرے میں آگئے ہیں۔ ان بوجھ بجھکڑوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ قانون کی حرکت میکانیاتی MECHANICAL نہیں ہوتی بلکہ شخصی فیصلے کے تابع ہوتی ہے، قانون بنانے والا اور اسے نافذ کرنے والا جب چاہے گا قانون کو حرکت میں لے آئے گا۔ اسی طرح شخصی خدا کے تصور سے آشنا شخص یہ جانتا ہے کہ قانون فطرت کی طرح قانونِ مشیت بھی اٹل ہے۔ لیکن وہ کس کیلئے اور کب متحرک ہو گا یہ اُس ذات کا ذاتی فیصلہ ہے۔ یہ کائنات اتنی بھی میکانکی نہیں ہے کہ ہر چیز نیوٹن کے قوانینِ حرکت کے مطابق متحرک ہو جائے اور پھر رک جائے۔ بس! میرا خیال کہ یہیں رک جائیں، بیشر اس کے کہ روک دیے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ اپنے بندوں کوجھنجھوڑتا ہے، توبہ کی مہلت دیتا ہے اور پھر توبہ قبول بھی کرتا ہے۔ وہ توبہ توڑنے والوں کو پھر مہلت دیتا ہے،مہلت در مہلت دیتا ہے،بلکہ مہلت کی رسی دراز بھی کرتا ہے۔۔لیکن حتمی قیامت سے پہلے فردِ جرم عائد نہیں کرتا۔ وہ غیب میں ہے،اور غیب میں رہے گا، عالمِ شہود میں اپنے فیصلوں پر قوانین فطرت کا پردہ ڈالے رکھے گا، تاکہ ذات تک صرف ذات کی رسائی ہو، کوئی غیر اُسے نہ پا سکے۔۔۔ بابِ معرفت میں اُس ذات نے انسان کو اس درجہ تکریم سے نواز رکھا ہے۔۔۔۔ کہ ذات کو صرف ذات ہی دریافت کر سکے گی ۔۔ شہرِ علمؐ کے واسطے اور درِ علمؑ کے وسیلے کے بغیر اُس کی دریافت اور یافت ایک نایافت ہی رہے گی۔۔ہمیشہ ہمیشہ کیلئے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply