• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نوجوانوں سے اپیل (1)۔۔مصنف: پیٹر کروپوٹکن/انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

نوجوانوں سے اپیل (1)۔۔مصنف: پیٹر کروپوٹکن/انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

بوڑھوں کو رہنے دیں، میں نوجوانوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔ ہاں، میرا مطلب یقینی طور پر اُن (بوڑھوں) سے ہے جو دل و دماغ سے بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ مسلسل پڑھنے کے عادی تو ہیں مگر اس سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔

میں فرض کرتا ہوں کہ آپ کی عمر 18 سے 20 سال ہے۔ آپ ابھی ابھی اپنی تعلیم یا پھر کسی ہنر میں ماہر ہونے کے لیے شاگردی ختم کر چکے ہیں۔ ابھی آپ اصل زندگی میں داخل ہو رہے ہیں۔ میں یہی فرض کر لیتا ہوں کہ فی الوقت آپ کا دماغ وہم و خوف سے پاک ہے، جو آپ کے اساتذہ آپ پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ آپ شیطان سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ آپ لوگوں اور وزیروں کی بَک بَک پر توجہ نہیں دیتے۔ مزید یہ کہ آپ خود پسندی اور گھمنڈ کا شکار نہیں ہیں، جو زوال پذیر حالات میں معاشرے کی غم زدہ اور سوگوار پیداوار بن جاتے ہیں۔ جو اپنے بے ہودہ لباس اور بندر جیسی شکل لے کر پارکوں کے چکر کاٹتے ہیں۔ اور جو اپنی اوائل عمری میں ہی کسی بھی قیمت پر خوشی و لذت کے بھوکے اور متلاشی ہوتے ہیں۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس میں فرض کر لیتا ہوں کہ آپ ایک پرجوش اور ولولہ انگیز دل کے مالک ہیں، اس لیے میں آپ سے مخاطب ہوں۔

میں جانتا ہوں پہلا سوال جو ہمیشہ آپ کے ذہن میں ابھرتا ہے، جو آپ ہمیشہ خود سے کرتے ہیں. وہ ہے؛ ”میں مستقبل میں کیا بننے والا ہوں؟”

یہ حقیقت ہے کہ جب ایک نوجوان کئی سال سائنس یا تجارت پڑھتا ہے تو وہ یہ بخوبی جانتا ہے کہ اس نے یہ علم بطور آلہ ہرگز حاصل نہیں کیا کہ اس کی مدد سے معاشرے کا مزید استحصال کر کے ذاتی فوائد حاصل کر سکے۔ اسے قطعاً اتنا بدچلن، بدکردار اور ناسور پنے کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ اس نے کبھی یہ خواب تک نہ دیکھا ہو کہ وہ اپنی ذہانت، قابلیت اور علم کے سہارے ان لوگوں کے حقِ رائے کی مدد کرے جو آج ذلّت، خواری اور بدحالی و جہالت کا شکار ہیں۔

آپ انھیں میں سے ہیں جس نے یہ خواب دیکھا تھا۔۔۔؟
بہت ہی اچھا۔۔۔!
چلیں اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کو اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

مجھے نہیں معلوم آپ کس طبقے میں پیدا ہوئے۔ شاید خوش قسمتی سے آپ نے اپنی توجہ سائنس پڑھنے کی طرف مبذول کی ہو۔ آپ ایک ڈاکٹر، ایک وکیل، ایک ادبی شخصیت یا پھر ایک سائنس دان بنیں۔ آپ کے لیے وسیع مواقع ہیں۔ آپ زندگی میں ایک اچھی تعلیم اور تربیت یافتہ ذہن کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ یا پھر دوسری طرف شاید آپ ایک ایماندار کاریگر ہیں جس کا علمِ سائنس محدود ہے کیوں کہ آپ نے فقط ایک اسکول میں پڑھا ہے۔ لیکن آپ کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ جان سکیں کہ ہمارے دور کے محنت کش کی زندگی کتنی اجیرن ہے۔

میں اپنے دوسرے مفروضے کو ترک کر کے پہلے کی جانب لوٹتا ہوں۔ فرض کریں کہ آپ نے ایک ڈاکٹر بننے کے لیے سائنسی تعلیم حاصل کی ہے۔ کل دوسری سڑک سے ایک آدمی آپ کے پاس آتا ہے کہ آپ اس کی بیمار بیوی کو دیکھ لیں۔ وہ آپ کو ایک ایسی تنگ گلی میں لے جاتا ہے کہ جہاں سے گزرتے ہوئے وہاں رہنے والا ہمسایہ قربت و جگہ کی تنگی کے سبب باآسانی آپ کے سر کو چھو سکتا ہے۔ آپ ایک خستہ حال ماحول میں ٹمٹماتے دیے کے سہارے اوپر چڑھتے ہیں۔ آپ چار پانچ گندی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ایک یخ بستہ کمرے میں داخل ہوتے ہیں، جہاں بیمار خاتون گندے لحافوں میں لپٹے ایک تختے پر لیٹی ہوئی ہے۔ ناکافی کپڑوں میں ملبوس سردی سے کانپتے ہوئے بچے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ آپ کو گھورتے ہیں۔ شوہر نے زندگی بھر 13 سے 14 گھنٹے روزانہ کام کیا ہے اور اب وہ تین مہینے سے بے روزگار ہے۔ بیروزگاری اس کے لیے کوئی اچھنبے کی بات نہیں، ہر سال تسلسل کے ساتھ وہ ایسی صورت حال کا سامنا کرتا ہے۔ لیکن جب وہ ماضی میں بیروزگار ہوتا تھا تو اس کی بیوی بطور ماسی، گھر سے باہر نکلتی تھی۔ شاید وہ آپ کے کپڑے دھوتی ہو، وہ بھی یومیہ چند سکوں کے لیے۔ اب وہ بچھلے دو مہینوں سے بستر پر پڑی ہوئی ہے اور مفلسی نے شدید وحشت انگیز حالت میں پورے خاندان کو گھیرا ہوا ہے۔

اب آپ اس بیمار خاتون کے لیے کیا تجویز کریں گے؟ بطور ڈاکٹر آپ پہلی ہی نظر میں سمجھ گئے ہیں کہ خاتون کی بیماری کی اصل وجہ خون کی کمی ہے۔ صاف ہوا کی کمی ہے؟ اسے اچھا کھانا چاہیے؟ شاید آپ کہیں کہ اسے روزانہ گائے کا گوشت ملنا چاہیے؟ تھوڑی سی چہل پہل اور ایک صاف ستھرا ہوا زدہ روشن کمرہ چاہیے؟

کیا بے ہودہ پن ہے یہ؟ اگر وہ یہ سب (خرچے) برداشت کرنے کے قابل ہوتی تو آپ تجویز سے بہت پہلے عمل کر چکی ہوتی۔۔۔۔!

اگر آپ ایک اچھا دل، مسکراتا چہرہ، اور اچھی شکل رکھتے ہیں تو پھر خاندان آپ پر بہت سارے راز افشا کرے گا۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ گھر کے دوسرے حصے میں رہنے والی خاتون ایک استری کرنے والی ہیں۔ جب وہ کھانستی ہیں تو آپ کا دل پسیج جاتا ہے۔ ایک منزل نیچے رہنے والے تمام بچے بخار میں مبتلا ہیں، وہ جو اوّلین منزل پر دھوبن ہے. وہ بہار کے آنے تک زندہ نہیں بچے گی، اور پھر دوسری جانب اگلے گھر میں حالات اس سے بھی گئے گزرے ہیں۔

ان بیمار لوگوں سے آپ کیا کہیں گے۔۔۔؟ انھیں بہتر کھانا، صحت مند ماحول اور کم مشقت کی تجویز دیں گے۔۔۔؟ آپ کی خواہش ہوگی کہ ایسا کریں مگر آپ ایسا نہیں کر سکتے اور ٹوٹے دل کے ساتھ ہونٹوں پر پھٹکار لیے باہر نکل جاتے ہیں۔

آپ ابھی تک ان بدحال زندگی گزارنے والوں کی بدقسمتی کے خیالوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اگلے دن آپ کا ساتھی آپ کو بتاتا ہے کہ کل ایک بندہ اس کے پاس ایک گاڑی میں آیا کہ وہ ایک عورت کا علاج کرنے اس کے ساتھ چلے۔ اب کی بار یہ ایک نہایت ہی عمدہ قیمتی گھر کی مالکن کے واسطے تھا۔ وہ عورت رت جگے کا شکار تھی اور اپنی تمام تر زندگی کپڑوں کی پسند کے لیے وقف کر دی تھی۔ اس کی زندگی ایک بیوقوف شوہر کے ساتھ تُو تُو، مَیں مَیں میں گزر رہی تھی۔ آپ کے دوست نے اسے ایک معقول زندگی گزارنے، کم حرارتی غذا کھانے، صحت بخش ماحول میں چہل قدمی کرنے، مناسب مزاج اختیار کرنے، تھوڑا بہت کام کرنے اور اپنے رہائشی کمرے میں تھوڑی سی ورزش کرنے کی تجویز دی تھی۔

ایک اس لیے مر رہی ہے کہ اسے اپنی زندگی میں کبھی بھی مناسب کھانا اور تھوڑے سے آرام کا موقع نہیں ملا، اور دوسری کی حالت اس لیے ایسی ہے کہ اسے اپنی پیدائش سے لے کر اب تک کبھی معلوم ہی نہ ہوا کہ کام کیا چیز ہے۔

اگر آپ کی فطرت ہر صورت میں خلط ہونے کی قائل ہے جو ان تمام تر نفرت انگیز مناظر کو ایک دفع دیکھ کر ایک شریفانہ آہ کے ساتھ رفع کرتی ہے تو پھر آپ آہستہ آہستہ ان متوزای مناظر کو قبول کرنے کے عادی ہو جائیں گے۔ اور آپ کے اندر کا حیوان آپ کی اس کوشش کی طرفداری کرے گا اور آپ اپنی ذات کے لیے خوشی کی تلاش تک محدود رہ جائیں گے۔ اور کبھی اپنے آپ کو پھر سے افتادگانِ خاک کے ساتھ جوڑ نہیں پائیں گے۔

لیکن اگر آپ اپنے جذبات کو اپنی خواہشات میں تبدیل کرنے کے قائل شخص ہیں، آپ کے اندر کے حیوان نے آپ کے انسان بننے کی خواہش کو اب تک نہیں کچلا، تو پھر آپ ایک دن گھر لوٹیں گے اور خود سے مخاطب ہو کر کہیں گے، ”نہیں، یہ ظلم ہے، اسے ہر صورت روکنا چاہیے۔“ محض بیماریوں کا علاج کافی نہیں ہے، ہمیں ان بیماریوں کو روکنا چاہیے۔ تو پھر ہماری فہرست میں ایک اچھی پیش رفت ہوگی جو آدھے مریضوں اور آدھے بیماروں میں کمی لائے گی۔ ہمیں یہ تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہوگا کہ ہم اچھا کھانا اور کم کچلنے والی محنت کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اس کے بغیر ڈاکٹری کا پورا شعبہ مکاری، دھوکہ اور فریب کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

اس دن سے ہی آپ سوشلزم کو سمجھیں گے۔ آپ اسے مکمل طور پر گہرائی سے جاننے کی خواہش کریں گے۔ اور اگر آپ کے لیے جذبہ ایثار اہمیت سے عاری محض ایک محروم لفظ نہیں ہے، اگر آپ سماجی سوال کو بطور ایک فطری فلاسفر سخت مثالوں سے نتیجہ اخذ کرنے کے لیے اپلائی کریں گے تو آپ خود کو ہماری صفوں میں پائیں گے۔ اور آپ اس طرح کام کریں گے جیسے ہم کرتے ہیں، تاکہ ہم ایک سماجی انقلاب لا سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری)

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply